Topics

دسمبر1992؁۔واحد کفیل

ہم جب کائنات کے ایک چھوٹے سے حصہ پر دنیا کے مکینوں کے حالات زندگی معلوم کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ

                اس دنیا میں ہر نوع اپنی حفاظت کرتی ہے اور ہر نوع اپنی شناخت برقرار رکھنے کیلئے باہم اتحاد کا مظاہرہ کرتی ہے۔ چڑیا ہزار ہا قسم کی ہوتی ہے لیکن ہر چڑیا اپنی نوع کے افراد کے ساتھ رہتی ہے۔ کبوتر کسی بھی رنگ و نسل کا ہو……یہ دیکھنے میں نہیں آیا کہ کبوتر، کوئوں کے ساتھ بیٹھتا ہو۔ بھیڑ، بکری، کتا اور دوسرے چوپائے بھی اپنے نسلی اتحاد کو برقرار رکھتے ہیں……کبھی نہیں دیکھا گیا کہ شیر بکریوں کے ساتھ جنگل جنگل پھرتا ہو۔ مکھیوں کی سینکڑوں قسمیں ہیں۔ تتلیاں بھی بے شمار رنگ کی ہوتی ہیں۔ یہ سب اپنی نوع کی حفاظت اور شناخت کیلئے ایک ساتھ جیتی جاگتی ہیں۔

                اس مطالعہ کا حاصل یہ ہے کہ کائنات میں اتحاد، اتفاق اور محبت کا عمل دخل ہے اور یہی کائنات کی خوبصورتی اور کائنات کے وجود کی ضامن ہے۔

                اللہ تعالیٰ جو کائنات کی ساری دنیائوں تمام کہکشائوں عالمین اور کائناتی کنبے کا واحد کفیل ہے……یہ چاہتا ہے کہ لوگوں میں اتحاد اور محبت رہے تا کہ مضبوط کائناتی نظام برقرار رہے۔ انسانی زندگی کیلئے نفاق گھن کی طرح ہے۔ جب انسانی زندگی یا آدم زاد برادری کے وجود کو گھن لگ جاتا ہے تو اجتماعی طاقت ختم ہو جاتی ہے اور انسان انفرادی سوچ میں تقسیم ہو جاتا ہے۔ انفرادی تقسیم چونکہ خالق کائنات کے مزاج کے خلاف ہے۔ اس لئے اجتماعی شعور انسان سے اپنا رشتہ توڑ لیتا ہے۔ پھر انسان برادری کے خود غرضی، لالچ، حسد، نفرت شامل ہو جاتا ہے۔ انسانوں کا جو سیلاب اجتماعی حیثیت میں اپنا تحفظ کر سکتا ہے وہ ایک ایک کر کے مر جاتا ہے۔ بے حسی قوم کے اوپر مسلط ہو جاتی ہے چند آدمی ہزار آدمیوں پر کفن ڈال دیتے ہیں۔

                مذہب یا مذاہب عالم کی تاریخ یہ ہے کہ جب تک مذہب کی بنیاد پر آدمی مصلحتوں کا شکار نہیں ہوا۔ اجتماعی حیثیت قائم رہی اور چالاک لوگ جب مذہب میں مصلحت شامل کرنے میں کامیاب ہو گئے تو اجتماعیت پارہ پارہ ہو گئی۔ چالاک لوگ قوم کو تفرقوں میں بانٹ کر اپنی جیبیں بھرتے رہتے ہیں۔ قوم ان کے پاس گروی مال بن جاتی ہے۔

                مذہب کے ارکان پر تفکر کیا جائے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ مذہب نام ہے اجتماعی زندگی کا۔

                محلے میں پانچ وقت باجماعت نمازیں، جمعہ کے دن جامع مسجد میں لوگوں کا اجتماع، عید گاہوں میں ہجوم، حج کے دنوں میں بائیس تئیس لاکھ نفوس کی حاضری۔ روزوں کے دنوں میں ایک ساتھ سحری ایک ساتھ افطاری، نکاح کی تقریب، عوت ولیمہ کا اہتمام اور جہاد فی سبیل اللہ اس کی سند ہیں کہ مذہب لوگوں کو اجتماعیت کا درس دیتا ہے اور تفرقے ختم کر کے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونے کی دعوت دیتا ہے۔

                لیکن جب اللہ کے قانون

                اور اللہ کی رسی کو متحد ہو کر مضبوطی کے ساتھ پکڑ لو اور آپس میں تفرقہ نہ ڈالوo

                کا انحراف قوم کا شعور بن جاتا ہے تو ہر آدمی کا ایمان کمزور ہو جاتا ہے۔ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو پہلے کافر کہتا ہے پھر ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو ذبح کر دیتا ہے۔ قوم کے چالاک دانشور اتنی نفرت پیدا کر دیتے ہیں کہ نفرت کی بھٹی میں قوم جل جاتی ہے اور اس کے اوپر اجتماعی موت وارد ہو جاتی ہے اور دوسری متحد قومیں گِدھوں کی طرح مردہ قوم کا گوشت نوچ لیتی ہیں اور اپنا محتاج بنا لیتی ہیں۔

                اجتماعی نظام کے امین، سرپرست اعلیٰ، واحد کفیل، اللہ کے نائب، اجتماعی نظام کے امین اللہ کے رسولﷺ کا ارشاد ہے کہ

                ’’سارے مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔‘‘

Topics


نورنبوت نور الٰہی-V1

خواجہ شمس الدین عظیمی

زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور لازوال عیش ہے۔