Topics

اگست 1984؁ء۔توبہ اور گناہ

ترجمہ: پلٹ آئو خدا کی طرف پلٹ آ۔ تو جو کچھ بھی ہے جیسا بھی ہے خدا کی طرف لوٹ آ۔ اگر تو کافر ہے، آتش پرست ہے یا بت پرست ہے تب بھی خدا کی طرف سے ناامید نہ ہو۔ اللہ کا دربار مایوسی اور ناامیدی کا دربار نہیں ہے۔ اگر تو نے سو (۱۰۰) بار بھی توبہ توڑی ہے تب بھی مایوس ہونے کی بات نہیں ہے آگے بڑھ اور اپنے خدا سے رجوع کر۔

                توبہ کے معنی ہیں رجوع کرنا، واپس آ جانا، بچھڑ کر مل جانا اور شرمسار ہو کر خدا کی طرف متوجہ ہونا۔ ہمارے پالنے والے کو، ہمیں زندگی عطا کرنیو الے کو اور ہمارے رب کو سب سے زیادہ خوشی اس وقت ہوتی ہے جب بندہ اظہار ندامت کے ساتھ عجز و انکسار کے ساتھ اللہ کے حضور جھک جاتا ہے۔

                ایک دفعہ کچھ جنگی قیدی گرفتار ہو کر آئے۔ ان میں ایک عورت بھی تھی جس کا دودھ پیتا بچہ اس سے بچھڑ گیا تھا۔ وہ مامتا کی ماری ایسے بے قرار تھی کہ جس چھوٹے بچہ کو دیکھتی اسے اپنے سینے سے لگا کر دودھ پلانے لگتی۔ اس عورت کا یہ حال دیکھ کر حضور اکرمﷺ نے صحابہ سے پوچھا۔ کیا تم توقع کر سکتے ہو کہ یہ ماں اپنے بچے کو خود اپنے ہاتھ سے آگ میں پھینک دے گی؟‘‘

                صحابہؓ نے عرض کیا۔ ’’یا رسول اللہﷺ! خود پھینکنا تو درکنار اگر بچہ آگ میں گرنے لگے تو یہ اپنی جان دے کر بھی بچہ کو بچا لے گی۔‘‘

                نبی برحق علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:

                ’’خدا اپنے بندوں پر اس سے بھی زیادہ مہربان ہے۔‘‘

                گناہ سرزد ہو جائے تو توبہ کرنے میں کبھی تاخیر نہیں کرنی چاہئے۔ اظہار ندامت کے ساتھ، انکسار کے ساتھ، عاجزی کے ساتھ، اپنے اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہو کر معافی طلب کیجئے۔ توبہ اور استغفار سے روح مجلیٰ ہو جاتی ہے اور قلب دھل جاتا ہے۔ نہایت خلوص اور سچائی کے ساتھ توبہ کرنے سے انسان کی زندگی بدل جاتی ہے۔ ازل میں خدا سے کئے ہوئے عہد و پیمان کو قائم رکھنا بندہ کا اخلاقی اور روحانی فرض ہے۔ اس فرض کو پورا کرنا ہمارے اوپر واجب ہے۔ اپنی پاکیزگی اور اصلاح حال کا خیال رکھئے۔ اپنی ساری کوششوں کے باوجود اگر آپ اپنے عہد پر قائم نہ رہیں اور آپ سے غلطی سرزد ہو جائے تو بھی خدا سے مایوس ہرگز نہ ہوں پھر خدا ہی کے دامن رحمت میں پناہ تلاش کریں۔ خدا آپ سے دور نہیں ہے۔ وہ آپ کی رگ جاں سے زیادہ قریب ہے۔ جہاں آپ ایک ہیں وہاں دوسرا اللہ ہے۔ جہاں آپ دو ہیں وہاں تیسرا اللہ ہے۔ آپ جو کام کرتے ہیں اللہ دیکھتا ہے، آپ جو کچھ چھپاتے ہیں اللہ اسے جانتا ہے۔ وہی آپ کی انتہا ہے وہ ہر چیز پر محیط ہے۔ قادر مطلق اور علیم و خبیر ہے۔ آپ خدا کو آواز دیں۔ اے خدا، ہمارے پروردگار! بے شک میں بہت کمزور ہوں۔ بلاشبہ میں نے اپنے نفس پر ظلم کیا ہے مگر آپ کی رحمت میرے گناہوں پر محیط ہے۔ اے میرے رب! اے وہ ذات جو ستر مائوں سے زیادہ محبت اپنے بندوں سے کرتی ہے، میرے اوپر رحم فرما اور مجھے اپنے دامن عافیت میں قبول فرما!

                ضروری نہیں ہے کہ آدمی جب گناہ کرے اسی وقت توبہ و استغفار کرے۔ آدمی ہر وقت توبہ کا محتاج ہے۔ قدم قدم پر اس سے کوتاہیاں ہوتی رہتی ہیں…حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم ازل سے معصوم ہیں، اللہ کے محبوب ہیں، شافع روز جزا ہیں، رحمت اللعالمین ہیں۔ اس کے باوجود ستر ستر بار اور سو سو بار استغفار فرماتے تھے اور آج بھی حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ عمل جاری ہے۔ نبی مکرم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ سب سے عمدہ دعا یہ ہے:

                ’’اے اللہ! تو میرا پروردگار ہے۔ تیرے سوا کوئی اور معبود نہیں۔ تو نے مجھے پیدا کیا ہے اور میں تیرا بندہ ہوں اور میں  نے تجھ سے اطاعت و بندگی کا جو عہد و پیمان کیا ہے اس پر اپنے ارادے اور اختیار کی حد تک قائم رہوں گا اور جو گناہ بھی مجھ سے سرزد ہوئے اس کی سزا سے بچنے کے لئے میں تیری پناہ میں آتا ہوں۔ اے اللہ! تو نے مجھے جن جن نعمتوں سے نوازا ہے ان کا میں اقرار کرتا ہوں اور مجھے اعتراف ہے کہ میں گناہ گار اور خطاکار ہوں۔ اے میرے پروردگار! میرے جوم کر معاف کر دے۔ تیرے سوا میری لغزشوں اور خطائوں کو اور کون معاف کرنے والا ہے۔‘‘

                اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

                ’’فی الواقع جو لوگ خدا سے ڈرنے والے ہیں ان کا حال یہ ہوتا ہے کہ کبھی شیطان کے اثر سے کوئی برا خیال انہیں چھو بھی جاتا ہے تو وہ فوراً چوکنے ہو جاتے ہیں اور پھر انہیں صاف نظر آنے لگتا ہے کہ صحیح روش کیا ہے۔‘‘  (الاعراف۔ ۲۰۱)

Topics


نورنبوت نور الٰہی-V1

خواجہ شمس الدین عظیمی

زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور لازوال عیش ہے۔