Topics
’’اور بے شک ہم نے تمہیں زمین
میں مضبوطی سے جما دیا اور تمہارے لئے اس میں معاش کے اسباب بنائے‘‘ ۔ (سورہ اعراف)
’’اے انسانو! کھائو جو کچھ زمین میں
حلال اور پاکیزہ ہے اور شیطان کے قدم پر مت چلو بے شک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے‘‘۔ (سورہ بقرہ)
جائز طریقوں سے ذریعۂ معاش کے حصول
کی تگ و دو کرنا اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے۔ کاروبار اور ملازمت میں حسنِ اخلاق ترقی
کے لئے ضمانت ہے۔ دکاندار اور کاروباری فرد کی حیثیت سے آپ کے اوپر بہت سی ذمہ داریاں
عائد ہوتی ہیں۔ خریداروں کو اچھے سے اچھا مال فراہم کریں۔ جس مال پر آپ کو خود اعتماد
نہ ہو وہ ہرگز کسی کو نہ دیں۔ آپ کو اپنے کردار سے یہ ثابت کرنا ہو گا کہ خریدار آپ
کے اوپر اعتماد کریں، آپ کو اپنا خیر خواہ سمجھیں، آپ سے متاثر ہوں اور ان کو پورا
یقین ہو کہ آپ کی دکان یا کاروبار سے انہیں کبھی دھوکا نہیں دیا جائے گا۔ اگر کوئی
خریدار آپ سے مشورہ طلب کرے تو بالکل صحیح صحیح اور مناسب مشورہ دیں چاہے اس میں آپ
کا بظاہر نقصان ہی کیوں نہ ہوتا ہو۔
وقت کی پابندی کا پورا خیال رکھیں اور
دکان صحیح وقت پر کھولیں اور صبر کے ساتھ دکان پر جم کر بیٹھے رہیں۔ صبح بہت سویرے
بیدار ہو کر فرائض ادا کرنے کے بعد رزق کی تلاش میں نکل جانے سے خیر و برکت ہوتی ہے۔
خود بھی محنت کیجئے اور ملازمین کو بھی محنت کا عادی بنایئے۔ ملازمین کے حقوق فیاضی
اور ایثار کے ساتھ پورے کیجئے۔ ملازمین کاروباری فروغ میں آپ کے ہاتھ پیر میں ہمیشہ
ان کے ساتھ پیار و محبت اور نرمی کا سلوک کریں۔
ملازمت کے دوران دفتر وقت پر پہنچیں
اور سارا کام باقاعدہ ٹائم ٹیبل کے مطابق کرنے کی عادت ڈالیں۔ دفتری نظام اجتماعی طرز
پر چلتا ہے کوئی بھی ایسی حرکت کرنے سے گریز کریں جس سے ادارہ کی اجتماعی ساکھ کو نقصان
پہنچنے کا خدشہ ہو۔ افسرانِ بالا سے تعلقات اچھے رکھنے کی کوشش کریں اور ان کی رائے
کو اہمیت دیں لیکن اس میں خوشامد کا پہلو نہ پایا جائے کیونکہ اس سے آپ کا وقار مجروح
ہو گا۔ ماتحت ساتھیوں کے ساتھ تعاون کریں۔ معاش کے حصول میں ناجائز ہتھکنڈے اختیار
کرنا، لوگوں کی حق تلفی کرنا اور آزار کا سبب بننا اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں۔ محنت
میں کبھی عار محسوس نہ کریں اور اپنا کام پوری دیانت کے ساتھ وقت پر پورا کریں۔
ہمارے پیارے نبیﷺ کی خدمت میں ایک صحابی
حاضر ہوئے اور کوئی بات پوچھی۔ حضورﷺ نے دریافت فرمایا ’’تمہارے گھر میں کچھ سامان
بھی ہے؟‘‘
صحابیٔ رسول نے عرض کیا ’’یا رسول اللہﷺ!
صرف دو چیزیں ہیں۔ ایک ٹاٹ کا بستر جسے اوڑھتے اور بچھاتے ہیں ایک پانی پینے کے لئے
پیالہ ہے‘‘۔
آپﷺ نے فرمایا ’’یہ دونوں چیزیں میرے
پاس لے آئو‘‘ صحابی دونوں چیزیں لے کر حاضر ہوئے۔ آپﷺ نے دونوں چیزیں دو درہم میں
نیلام کر دیں اور دونوں درہم ان کے حوالے کرتے ہوئے کہا ’’جائو ایک درہم میں تو کچھ
کھانے پینے کا سامان خرید کر گھر والوں کو دے آئو اور ایک درہم میں کلہاڑی خرید لائو‘‘۔
پھر کلہاڑی کے پھل میں آپﷺ نے اپنے
دستِ مبارک سے دستہ لگایا اور فرمایا ’’جنگل سے لکڑیاں کاٹ کاٹ کر لائو اور بازار میں
فروخت کرو اور پندرہ روز کے بعد آ کر ساری روداد سنائو‘‘۔ پندرہ روز بعد جب وہ صحابی
حاضر ہوئے تو ان کے چہرے پر سکون و اطمینان نظر آ رہا تھا۔ حضورﷺ نے خوش ہو کر فرمایا
’’یہ محنت کی کمائی تمہارے لئے اس سے کہیں بہتر ہے کہ تم لوگوں کے سامنے دستِ سوال
دراز کرو اور قیامت کے روز تمہارے چہرے پر بھیک مانگنے کا داغ ہو‘‘۔
ایک بار رحمت للعالمین حضور اکرمﷺ سے
لوگوں نے پوچھا ’’یا رسول اللہﷺ! سب سے بہتر کمائی کون سی ہے؟‘‘
فرمایا ’’اپنے ہاتھ کی کمائی اور ہر
وہ کاروبار جس میں جھوٹ اور خیانت نہ ہو‘‘۔
اس حکم کی تعمیل میں ہمارے اوپر یہ فرض
عائد ہوتا ہے کہ ہم دین پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہتے ہوئے کاروبار کریں۔ ہمیشہ سچائی
اور راست گوئی سے کاروبار کو فروغ دیں۔ اپنے سامان کو اچھا ثابت کرنے یا گاہک کو متاثر
کرنے کے لئے قسمیں نہ کھائیں۔
نبی آخر الزماںﷺ نے فرمایا ’’قیامت
کے روز اللہ تعالیٰ نہ اس شخص سے بات کرے گا، نہ اس کی طرف رخ کرکے دیکھے گا اور نہ
اس کو پاک صاف کر کے جنت میں داخل کرے گا جو جھوٹی قسمیں کھا کھا کر اپنے کاروبار کو
فروغ دینے کی کوشش کرتا ہے‘‘۔
رسول اللہﷺ نے یہاں تک فرمایا ہے کہ
’’سچا اور ایمان دار تاجر قیامت میں نبیوں، صدیقوں اور شہیدوں کے ساتھ ساتھ ہو گا‘‘۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ
ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور
مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی
اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان
کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو
اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں
تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ
باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب
سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور
لازوال عیش ہے۔