Topics
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کرام
کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
’’میری
امت پر وہ وقت آنے والا ہے جب دوسری قومیں اس پر اس طرح ٹوٹ پڑیں گی جس طرح کھانے
والے دسترخوان پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔‘‘
کسی
نے پوچھا۔ ’’یا رسول اللہﷺ!کیا اس زمانے میں ہماری تعداد اتنی کم ہو جائے گی کہ ہمیں
نگل لینے کے لئے قومیں متحد ہو کر ہم پر ٹوٹ پڑیں گی؟‘‘
ارشاد
فرمایا:
’’نہیں!
اس وقت تمہاری تعداد کم نہ ہو گی بلکہ تم بہت بڑی تعداد میں ہو گے۔ البتہ تم سیلاب
میں بہنے والے تنکوں کی طرح بے وزن ہو گے۔ تمہارے دشمنوں کے دل سے تمہارا رعب نکل جائے
گا اور تمہارے دلوں میں پست ہمتی گھر کر لے گی۔‘‘
اس
پر ایک آدمی نے عرض کیا:’’یا رسول اللہﷺ!یہ پست ہمتی کس وجہ سے آ جائے گی؟‘‘
رسول
اللہﷺ نے فرمایا:
’’اس
وجہ سے کہ تم دنیا سے محبت اور موت سے نفرت کرنے لگو گے۔‘‘
حضور
علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک سوکھی ٹہنی کو زور زور سے ہلایا۔ سب پتے ٹہنی ہلانے سے
جھڑ گئے۔ پھر آپﷺ نے فرمایا: ’’صلوٰۃ قائم کرنے والوں کے گناہ اسی طرح جھڑ جاتے ہیں
جس طرح اس سوکھی ٹہنی کے پتے جھڑ گئے۔‘‘ اور اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم
نے قرآن کی یہ آیت تلاوت فرمائی۔
’’اور
نماز قائم کرو دن کے دونوں کناروں پر اور کچھ رات گئے پر۔ بلاشبہ عمل خیر برائیوں کو
مٹا دیتا ہے۔ یہ نصیحت ہے نصیحت حاصل کرنے والوں کے لئے۔‘‘
اللہ
تعالیٰ کے ساتھ ربط قائم ہو جانے سے انسان کا دل مطمئن ہو جاتا ہے اور اس کے اوپر سکون
کی بارش برستی رہتی ہے۔ روحانیت میں قیام صلوٰۃ کا ترجمہ ربط قائم کرنا ہے یعنی اپنے
اللہ سے ہر حال اور ہر حرکت میں تعلق اور ربط قائم رکھا جائے۔ نماز کے ذریعے خدا سے
قربت حاصل کیجئے۔ بندہ اپنے رب سے سب سے زیادہ قریب اس وقت ہوتا ہے جب وہ اس کے حضور
سجدہ کرتا ہے۔
سجدہ
میں ذہنی یکسوئی حاصل ہوتی ہے۔ ہمارے مشائخ اولیاء اللہ فرماتے ہیں:
’’ذہنی
یکسوئی حاصل کرنے کے لئے بہترین عمل مراقبہ ہے۔‘‘
مراقبہ
ایک ایسی مشق ہے جس کے ذریعہ صلوٰۃ قائم کرنے کا عمل آسان ہو جاتا ہے۔
مسلمان
کی تعریف یہ ہے کہ حالات کیسے بھی لرزہ خیز ہوں، وہ حق کی حمایت میں کبھی کوتاہی نہیں
کرتا۔ شدید آزمائش میں بھی حق کا دامن نہیں چھوڑتا۔ کوئی موت سے ڈرائے تو وہ مسکرا
دیتا ہے اور شہادت کا موقع آئے تو شوق و جذبے کے ساتھ اس کا استقبال کرتا ہے۔
حضرت
عبداللہ ابن عباسؓ فرماتے ہیں جس قوم میں خیانت کا بازار گرم ہو جائے گا خدا اس قوم
کے دلوں میں دشمن کا خوف اور دہشت بٹھا دے گا۔ جس معاشرے میں ناپ تول میں کمی اور ملاوٹ
کا رواج عام ہو جاتا ہے وہ ضرور قحط کا شکار ہو گی۔ اور جہاں ناحق فیصلے ہوں گے وہاں
لازماً خونریزی ہو گی۔ جو قوم بھی بدعہدی کرے گی اس پر بہرحال دشمن کا تسلط ہو کر رہے
گا۔
اللہ
تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’مومن
مرد اور مومن عورتیں آپس میں ایک دوسرے کے دوست اور معاون ہیں۔‘‘
دوستوں
پر اعتماد کیجئے۔ انہیں افسردہ نہ کیجئے۔ ان کے درمیان ہشاش بشاش رہئے۔ دوستی کی بنیاد
خلوص، محبت اور رضائے الٰہی پر ہونی چاہئے۔ نہ کہ ذاتی اغراض پر۔ ایسا رویہ اپنایئے
کہ دوست احباب آپ کے پاس بیٹھ کر مسرت، زندگی اور کشش محسوس کریں۔
ایک
شب اللہ تعالیٰ نے حضور اکرمﷺ سے فرمایا:’’مانگئے‘‘۔
آپﷺ
نے دعا کی:
’’خدایا!
میں تجھ سے نیک کاموں کی توفیق چاہتا ہوں۔ اور بُرے کاموں سے بچنے کی قوت چاہتا ہوں
اور مسکینوں کی محبت چاہتا ہوں اور یہ کہ تو میری مغفرت فرما دے اور مجھ پر رحم فرما
دے اور جب تو کسی قوم کو عذاب میں مبتلا کرنا چاہے تو مجھے اس حال میں اٹھا لے کہ میں
اس سے محفوظ رہوں اور میں تجھ سے تیری محبت کا سوال کرتا ہوں اور اس شخص کی محبت کا
سوال کرتا ہوں جو تجھ سے محبت کرتا ہے اور اس عمل کی توفیق چاہتا ہوں جو تیرے قرب کا
ذریعہ ہو۔‘‘
حضور
اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
’’اچھے
دوست کی مثال ایسی ہے جیسے مشک بیچنے والے کی دکان کی کہ کچھ فائدہ نہ بھی ہو تو خوشبو
تو ضرور آئے گی اور بُرا دوست ایسا ہے جیسے بھٹی سے آگ نہ لگے تب بھی دھوئیں سے کپڑے
تو ضرور کالے ہو جائیں گے۔‘‘
دوستوں
کے انتخاب میں اس بات کو پیش نظر رکھئے کہ جس سے آپ تعلق بڑھا رہے ہیں اس کے رجحانات
اور اس کی سوچ کیسی ہے؟ اس کے خیالات تعمیری اور صحت مند ہیں یا نہیں؟ اللہ اور اس
کے رسولﷺ کے معاملے میں اس کے اندر کتنا ایثار ہے؟
حضور
اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
’’آدمی
اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے اس لئے ہر شخص کو غور کر لینا چاہئے کہ وہ کس سے دوستی
کر رہا ہے۔‘‘
دوستوں
سے ربط و ضبط اور تعاون بالخصوص اور دیگر لوگوں سے محبت بالعموم، محج اللہ کی رضا کے
لئے رکھئے اس میں منفعت اور غرض کا پہلو نہ ڈھونڈیئے۔
حضور
اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے:
’’قیامت
میں خدا فرمائے گا کہ وہ لوگ کہاں ہیں جو صرف میرے لئے لوگوں سے محبت کیا کرتے تھے۔
آج میں ان کو اپنے سائے میں جگہ دوں گا۔‘‘
اپنی
اور اپنے دوستوں کی مصروفیات میں اللہ اور اس کے رسولﷺ کے معاملات کو مرکزی حیثیت دیجئے۔
حضورﷺ نے فرمایا:
’’خدا
تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ مجھ پر واجب ہے کہ میں ان لوگوں سے محبت کروں جو لوگ میری خاطر
آپس میں محبت اور دوستی کرتے ہیں اور میرا ذکر کرنے کے لئے ایک جگہ جمع ہو کر بیٹھتے
ہیں اور میری محبت کے سبب ایک دوسرے سے ملاقات کرتے ہیں اور میری خوشنودی چاہنے کے
لئے ایک دوسرے کے ساتھ نیک سلوک کرتے ہیں۔‘‘
خواجہ شمس الدین عظیمی
زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ
ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور
مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی
اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان
کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو
اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں
تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ
باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب
سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور
لازوال عیش ہے۔