Topics

مئی2001؁۔اچھائی اور برائی برابر نہیں

’’اور میرے بندوں سے کہہ دیجئے کہ وہ بات کریں جو بہترین ہو‘‘۔  (سورۂ بنی اسرائیل)

              ’’اور اچھائی اور برائی برابر نہیں۔ برائی کو اچھائی سے ختم کرو۔ پس وہ شخص جو تم سے عداوت رکھتا ہے ایسا ہو جائے گا جیسے گہرا دوست‘‘۔  (سورۂ حم سجدہ)

              دوستوں سے خوش دلی، نرم خوئی اور مسرت و اخلاص سے ملئے، توجہ اور کھلے دل سے ان کا استقبال کیجئے۔ گفتگو نہایت اخلاق سے کیجئے جس سے سننے والے کو قربت کا احساس ہو۔ ملاقات کے وقت اور دوستوں کے معاملات میں لاپرواہی، بے نیازی اور روکھا پن اختیار نہ کیجئے۔ دوستوں سے لاپرواہی، بے نیازی، سپاٹ اور خشک لہجے میں گفتگو کرنا، چہرہ اور پیشانی پر بظاہر نظر نہ آنے والا منافقت کا عکس……ایسی بیماریاں ہیں جو دلوں میں کدورت کو جنم دیتی ہیں اور جن سے دلوں میں نفرت پیدا ہوتی ہے۔

              کوئی ایسا کام مت کیجئے کہ آپ کے عمل سے نوعِ انسانی کی فلاح متاثر ہو۔ ہمیشہ ان رخوں پر سوچئے کہ نسلِ انسانی کی فلاح و بہبود کے وسائل میں اضافہ ہو۔ اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ دوستوں اور رشتہ داروں کے دکھ درد میں شریک ہو کر، ان کے غم کو اپنا غم سمجھ کر ان کا غم غلط کرنے کی کوشش کیجئے۔ ان کی خوشیوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیجئے اور ان کی مسرتوں میں بغیر کسی احسان اور صلہ و ستائش کی پراہ کئے بغیر شریک ہو کر انہیں خوش کرنے کی کوشش کیجئے۔ ہر دوست اپنے پیاروں سے یہ توقع رکھتا ہے کہ وہ مصیبت میں اس کا ساتھ دے گا اور کوئی افتاد پڑنے پر اس کا ساتھ نہیں چھوڑے گا۔

              یاد رکھئے! جو لوگ اپنی تربیت و اصلاح سے غافل ہو کر دوسروں کی اصلاح و تربیت کی بات کرتے ہیں وہ خسر الدنیا ولاٰخرۃ کے مصداق ہمیشہ تہی دامن رہتے ہیں۔ جب تک آپ خود کو صراط مستقیم پر گامزن نہیں کریں گے آپ دوسروں پر اثر انداز نہیں ہو سکتے۔ جو کچھ دنیا کے سامنے پیش کریں پہلے خود اس کی خوبصورت تصویر بن جایئے۔ جو پیغام دینا ہو اپنی ذات کو بتایئے۔ آپ جو دوسروں سے چاہتے ہیں پہلے خود کر کے دکھایئے پھر دیکھئے آپ کے دشمن بھی آپ کے دوست بن جائیں گے۔

              نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے ’’ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے لئے عمارت کی طرح ہے جیسے عمارت کی ایک اینٹ دوسری اینٹ کا سہارا بنتی ہے اور ہر اینٹ دوسری اینٹ کو قوت پہنچاتی ہے‘‘۔ اس کے بعد آپﷺ نے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں پیوست فرما کر مسلمانوں کے باہمی تعلق اور اخوت و محبت کی مثال دی۔

              آپﷺ نے یہ بھی فرمایا:

              ’’تم مسلمانوں کو باہم رحم دلی، الفت و محبت اور آپس میں تکلیف و راحت کے جذبات میں ایسا پائو گے جیسے ایک جسم کہ اگر اس کا ایک عضو بیمار ہو جائے تو سارا جسم بیماری اور بے چینی میں اس عضو کا شریک بن جاتا ہے‘‘۔

              حق و صداقت کے پیکر پیارے نبی معلم اخلاق حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر مثبت طرز فکر اختیار کیجئے۔

              دوستوں، عزیزوں، رشتہ داروں اور غیروں سے ملاقات کے وقت مسرت، اطمینان اور انکساری سے بات کیجئے۔ حزن و ملال اور مردہ دلی کے کلمات ہرگز زبان پر نہ لایئے۔ ایسا انداز اختیار کیجئے کہ آپ کے ناخوش اور پژمردہ دل دوست بھی اپنے اندر خوشی اور پُر مسرت زندگی کی لہریں محسوس کریں۔ استقبال کے وقت افسردہ چہرہ آنے والے کے لئے خوشی کی بجائے رنج و ملال کا باعث بنتا ہے۔ حضورﷺ کا ارشاد ہے ’’میں تمہیں اس آدمی کی پہچان بتاتا ہوں جس پر جہنم کی آگ حرام ہے اور وہ آگ پر حرام ہے۔ یہ وہ آدمی ہے جو نرم مزاج، حلیم الطبع اور نرم خو ہے‘‘۔

              نبی کریمﷺ جب کسی سے ملاقات فرماتے تو پوری طرح اس کی طرف متوجہ ہو جاتے اور جب کوئی آپ سے بات کرتا تو آپﷺ پوری طرح متوجہ ہو کر اس کی بات سنتے۔

Topics


نورنبوت نور الٰہی-V1

خواجہ شمس الدین عظیمی

زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور لازوال عیش ہے۔