Topics

اکتوبر 2002؁-تحریر و تقریر

ارشاد بای تعالیٰ ہے:

              ’’پروردگار کے رستے کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ بلائو اور ان سے ایسے طور پر مباحثہ کرو کہ وہ بہت ہی اچھا ہو۔ بے شک تمہارا پروردگار خوب جانتا ہے جو اس کے راستے سے بھٹکا ہوا ہے اور وہی ان کو بھی خوب جانتا ہے جو ہدایت پر ہیں‘‘۔  (سورۂ النحل۔ آیت:125)

              دین کو پھیلانے کے لئے ہمیشہ دو طریقے رائج رہے۔ ایک طریقہ یہ ہے کہ مخاطب کی ذہنی صلاحیت کو سامنے رکھ کر اس سے گفتگو کی جائے اور حسنِ اخلاق سے اس کو اپنی طرف مائل کیا جائے۔ اس کی ضروریات کا خیال رکھا جائے۔ اس کی پریشانی کو اپنی پریشانی سمجھ کر تدارک کیا جائے۔

              دوسرا طریقہ یہ ہے کہ تحریر و تقریر سے اپنی بات دوسروں تک پہنچائی جائے۔ موجودہ دور تحریر و تقریر کا دور ہے۔ فاصلے سمٹ گئے ہیں، زمین کا پھیلائو ایک گلوب میں بند ہو گیا ہے۔ آواز، تصویر اور اطلاعات کے نقطہ نظر سے امریکہ اور کراچی کا فاصلہ ایک کمرہ سے بھی کم ہو گیا ہے۔ کراچی میں بیٹھ کر لندن، امریکہ کی سرزمین پر اپنا پیغام پہنچا دینا روزمرہ کا معمول ہو گیا ہے۔ یہی صورتحال تحریر کی ہے۔

              اپنی تحریر، تقریر اور گفتگو میں ہمیشہ الفاظ کی نشست و برخاست ایسی رکھیں کہ سننے اور پڑھنے والے کے اوپر امید اور تعلقِ خاطر کی کیفیت طاری ہو جائے۔ خوف کو درمیان میں نہ لایئے کہ خوف پر مبالغہ آمیز زور دینے سے بندہ خدا کی رحمت سے مایوس ہو جاتا ہے اور اسے اپنی اصلاح اور نجات نہ صرف مشکل بلکہ محال نظر آنے لگتی ہے۔ تحریر میں ایسے الفاظ استعمال کیجئے جن میں رجائیت ہو، خدا سے محبت کرنے کا ایسا تصور پیش کیجئے کہ خوف کی جگہ ادب و احترام ہو تا کہ وہ خدا کی رحمت و بخشش کو اس کے پورے ادب و احترام کے ساتھ قبول کرے۔

              دین کو مشکل بنا کر پیش مت کریں۔ اسلام دین فطرت ہے اور فطرت میں سختی، اکراہ اور زبردستی نہیں ہوتی، اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتے ہیں:

              ’’اللہ چاہتا ہے کہ تم پر سے بوجھ ہلکا کرے اور انسان طبعاً کمزور پیدا ہوا ہے‘‘۔  (سورہ النسائ۔ آیت 28)

              پیغامِ توحید کی ترویج کے حوالے سے حضور اکرمﷺ کا یہ ارشاد مبارک نہایت اہمیت کا حامل ہے کہ

              ’’سہولت پیدا کرو، دشواری پیدا نہ کرو۔ خوشخبری سنائو نفرت نہ پھیلائو‘‘۔

              اس فرمانِ نبویﷺ کا یہی مطلب ہے کہ مخاطب کے سامنے پیغام توحید کو اس طرح پیش کیا جائے کہ اس کے اندر رغبت اور میلان پیدا ہو، اس کے سامنے دینِ وحدت کو اس طرح پیش نہ کیا جائے کہ وہ بیزار اور متنفر ہو جائے۔

              غزوۂ خیبر کے موقع پر جب حضرت علیؓ کو عَلم عنایت ہوا تو انہوں نے عرض کیا:

              ’’یا رسول اللہﷺ! کیا یہودیوں کو لڑ کر مسلمان بنا لیں؟‘‘

              حضورﷺ نے ارشاد فرمایا:

              ’’نرمی کے ساتھ ان پر اسلام پیش کرو اگرچہ ایک شخص ہی تمہاری ہدایت سے صدقِ دل کے ساتھ اسلام قبول کرے‘‘۔

              ایک اور موقع پر سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے صاف طور پر ارشاد فرمایا:

              ’’دین آسان چیز ہے جو اس میں سختی پیدا کرے گا اس پر وہی سختی مسلط کر دی جائے گی‘‘۔

              حضرت علیؓ فرماتے ہیں:

              ’’بہترین عالم وہ ہے جو لوگوں کو ایسے انداز سے خدا کی طرف دعوت دیتا ہے کہ بندے خدا سے مایوس نہیں ہوتے اور نہ ہی خدا کا ایسا تصور پیش کرتا ہے کہ وہ خدا کی نافرمانی کی سزا سے بے خوف ہو جائیں‘‘۔

              اپنی گفتگو، تحریر و تقریر میں ہمیشہ اعتدال کا راستہ اختیار کیجئے۔ دین کی دعوت اور روحانی علوم کی اشاعت کے لئے تھوڑا کام کیجئے مگر مسلسل کیجئے۔ لوگوں کو روحانی صلاحیتوں سے استفادہ کرنے کی دعوت دیجئے اور اس راہ میں پیش آنے والی مشکلات، تکالیف اور آزمائشوں کا خندہ پیشانی سے استقبال کیجئے۔

              نبی کریمﷺ کا ارشاد عالی مقام ہے:

                ’’بہترین عمل وہ ہے جو مسلسل کیا جاتا ہے چاہے وہ کتنا ہی تھوڑا ہو‘‘۔

Topics


نورنبوت نور الٰہی-V1

خواجہ شمس الدین عظیمی

زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور لازوال عیش ہے۔