Topics
وسائل کی کمی، جنگ و جدل، ظلم و ستم و
بربریت، فتنہ و فساد، قدرتی عذابوں کی تباہ کاریاں اور موت کے ان دیکھے شکنجوں میں
مقید ہو کر دولت و حشمت دنیا سے ہمیشہ کے لئے محروم ہو جانے کی ہیبت یا روز بروز
کے بڑھتے ہوئے سماجی اور سیاسی انفرادی اجتماعی مسائل کے خوف ہر صورت میں سطحی
تدبیروں اور بے جا ہتھ کنڈوں میں وقت ضائع کئے بغیر ان کے اصل اسباب و وجوہات
معلوم کر کے اپنی تمام تر روحانی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر ان کے حل کے لئے
صحیح خطوط پر قدم بڑھائیں۔ اس کو قرآن پاک میں صراط مستقیم کہا گیا ہے۔ جو یقیناً
کامیابی کی راہ ہے۔
(اے
اللہ! آپ) ہمیں سیدھی راہ دکھایئے۔ ان لوگوں کا راستہ جن کو آپ نے اپنے انعام سے
نوازا۔ مغضوب اور معتوب لوگوں کے راستوں سے بچایئے۔‘‘ (سورہ فاتحہ)
مخلوق
کی استدعا کا جواب اللہ نے یوں دیا۔
’’اور
تم پر جو مصائب آتے ہیں وہ تمہارے ہی کرتوتوں کا نتیجہ ہیں اور خدا تو بہت خطائوں
سے درگزر کرتا ہے۔‘‘ (سورۃ الشوریٰ)
’’اور
تم سب مل کر خدا کی طرف پلٹو! اے مومنوں! تا کہ تم فلاح پائو۔‘‘
اپنی
ہی کرتوتوں کے ہیبت ناک دلدل اور اپنے ہی ہاتھوں سے بنائے ہوئے ان دیکھے شکنجوں
میں مقید قوم یا فرد جب اپنے رب سے عہد وفا استوار کرتا ہے اور اپنے کرتوتوں پر
نادم ہوتا ہے اور اپنی نا اہلی کا اقرار کرتا ہے۔ اپنے رب کے آگے گڑگڑاتا ہے اور
اتنا روتا ہے کہ آخر کار اس کی روح کا سارا نظام ساری کثافتوں سے دھل جاتا ہے تو
اللہ تعالیٰ ایسی قوم یا ایسے فرد سے بہت خوش ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف پلٹنے
کو قرآن پاک کی زبان میں توجہ کہا گیا ہے اور یہی توجہ (اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع
کرنا ہے) یہی دین و دنیا کے تمام مسائل کے حل اور ہر قسم کے خوف و غم سے محفوظ
رہنے کا واحد اور حقیقی علاج ہے۔
دل
کی عمیق ترین گہرائیوں سے اللہ تعالیٰ کی ذات کو پہچانیئے۔ دل و دماغ، احساسات و
جذبات، افکار و قیادت اور اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ دوسری تمام صلاحیتوں کو مجتمع
کر کے اپنے رب کی طرف یکسوئی اور دھیان سے متوجہ ہو جایئے۔ دوسروں کے لئے اپنی
زندگی کو عشق و وفا کی چلتی پھرتی، منہ بولتی تصویر اور نمونہ بنا دیجئے بلاشبہ ایسے افراد کو اللہ
تعالیٰ اپنے خاص بندوں کی صف میں شامل کر لیتا ہے۔ جس کا مشاہدہ روح کی آنکھیں
اور روحانی لوگ کرتے رہتے ہیں۔
اللہ
تعالیٰ کے ان مخصوص بندوں کا ایک سلسلہ ہے جس میں شامل ہونے کے بعد انسان کا دل،
دماغ اور نفس مطمئن ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے ایسے بندوں پر اپنے فضل و کرم سے
اپنی رحمتوں برکتوں اور انوار و تجلیات کی بارش فرماتا ہے۔
آدمی
اللہ تعالیٰ سے سب سے زیادہ قریب اس وقت ہوتا ہے جب وہ اپنے رب کے حضور سجدہ ریز
ہوتا ہے۔ اپنی پیشانی کو اپنے حقیقی معبود اور مالک کے سامنے جھکا دیتا ہے۔
دوسری
اقوام کے سامنے سر کو جھکا کر نہ صرف خود کو ذلیل کرتا ہے بلکہ اپنے قومی وقار کو
مجروح کرتا ہے۔
آیئے!
اس کا سراغ لگائیں کہ وہ کون سے اسباب ہیں جنہوں نے دشمنوں کو آپ پر حاکم اور آپ
کو ان کا محکوم اور غلام بنا دیا تھا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کی دو
وجوہات بیان کی ہیں۔
۱۔ دنیا کی محبت
۲۔ مرنے کا خوف
ایک
باہمت بہادر انسان (مسلمان) جس کا دل اپنے رب کی محبت میں سرشار ہے۔ کسی بھی حال
میں حالات کے آگے سرنگوں نہیں ہوتا۔ دنیا کی محبت اسے دامنگیر نہیں ہوتی۔ اور موت
کے کرخت وجود کو اپنے سامنے دیکھ کر وہ مسکراتا ہے۔ تاریخ میں ایسے بے شمار افراد
کا تذکرہ ملتا ہے۔ جنہوں نے جام شہادت اس طرح ہنستے مسکراتے پی لیا جیسے کوئی شہد
کا پیالہ ہو۔
یاد
رکھیئے! ان اجتماعی کمزوریوں کا سدباب کریں۔ بزدلی اور احساس کمتری کا شکار ہو کر
کسی بے بس پرندے کی طرح دشمنوں کے جال میں گرفتار نہ ہوں۔ دشمنوں کا خوف خیانت کے
باعث پیدا ہوتا ہے۔ قحط ملاوٹ اور ناپ تول میں کمی کے باعث پڑتا ہے۔ جہاں ناحق
فیصلے ہوں گے وہاں جھگڑا فتنہ و فساد، خون ریزی ضرور ہو گی۔ بدعہد قوم پر اس کے
دشمن ہر حال میں اپنا تسلط جما لیتے ہیں۔ آیئے! ہم سب مل کر اپنا محاسبہ کریں اور
دیکھیں کہ اس وقت ہم کہاں اور کس حال میں کھڑے ہیں اور فخر کائنات صلی اللہ علیہ و
سلم کے فرمائے ہوئے الفاظ میں اس طرح اپنے رب کے حضور دعا کریں۔
ترجمہ:
’’پاک و برتر ہے اللہ! بادشاہ حقیقی، عیبوں سے پاک۔ اے فرشتوں اور جبرائیل کے
پروردگار! تیرا ہی رعب اور دبدبہ آسمانوں اور زمین پر چھایا ہوا ہے۔
خدایا!
خدایا تو ہی ہماری عزت و آبرو کی حفاظت کر اور خوف و ہراس سے امن عطا فرما۔‘‘
خواجہ شمس الدین عظیمی
زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ
ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور
مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی
اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان
کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو
اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں
تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ
باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب
سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور
لازوال عیش ہے۔