Topics

فروری 2002؁۔آخرت طلب کرو

’’اور جو تم کو اللہ نے عطا کیا ہے اس سے آخرت طلب کرو اور دنیا سے اپنا حصہ مت بھلائو اور جیسی اللہ نے تم سے بھلائی کی ے تم بھی بھلائی کرو‘‘۔  (سورۂ القصص)

              سورۂ یونس میں ارشاد ہے:

              ’’ہم نیکوکاروں کو ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیں گے بلکہ کچھ زیادہ ہی عطا کریں گے ان کے چہروں کو ذلت اور مسکنت کی سیاہی سے محفوظ رکھیں گے اور جنت میں انہیں دائمی سکون حاصل ہو گا۔

              اور بدکاروں کو ان کے اعمال کے مطابق سزا دی جائے گی، ان کے چہرے ذلت اور رسوائی کے تاثرات سے سیاہ پڑ جائیں گے اور ان کا مستقل ٹھکانہ دوزخ ہے۔‘‘

              نیکوکاری یہ ہے کہ بندہ اپنے خالق کو پہچان لے اور محروم القسمت لوگ وہ ہیں جو اپنے خالق کا عرفان نہیں کرتے۔ خالق کا عرفان حاصل کرنے کے لئے پہلے خود اپنی ذات کا عرفان ضروری ہے اور اپنی ذات کا عرفان یہ ہے کہ ہم اپنے اندر موجود اللہ کے نور کا مشاہدہ کریں۔

              ایک ہم ہیں اور ایک ہمارا دوست۔ وہ دوست سراپا خلوص اور عجز و نیاز ہے۔ دوست کے دل میں محبت کی شمع روشن ہے۔ شمع کے شعلہ کی تپش ہم محسوس کرتے ہیں۔ جب ہم تنہائی محسوس کرتے ہیں تو دوست کا خیال ہمیں رنگ رنگ لذتوں سے آشنا کرتا ہے۔ ہم جب بیمار ہوتے ہیں تو دوست کی تیمارداری ہمیں زندہ رہنے پر آمادہ کرتی ہے ۔ خدا نہ کردہ ہم کسی پریشانی میں مبتلا ہو جاتے ہیں تو دوست کا ایثار ہمیں اس پریشانی سے نجات دلا دیتا ہے۔ کوئی شخص جب ہمارے اس دوست کو بُرا کہتا ہے تو ہم اذیت کی ایسی تکلیف سے دوچار ہو جاتے ہیں کہ ہمارا شعور بے حال ہو جاتا ہے۔ مختصر یہ کہ اگر کوئی آدمی کسی کو اس کی اپنی ذات تک بُرا بھلا کہے یا تکلیف پہنچائے تو آدمی عفو و درگزر سے کام لے کر آگے بڑھ جاتا ہے لیکن مخلص اور ایثار پیشہ دوست کی برائی ہر اس بندہ کے لئے جو خلوص کو سمجھتا ہے، ناقابلِ برداشت ہے۔

              اولیاء اللہ کے دل ہدایت، خلوص، ایثار، محبت اور عشق کے چراغ ہیں۔ یہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کے ایسے دوست ہیں جن کو اللہ اور اس کے رسولﷺ عزیز رکھتے ہیں، ان سے محبت کرتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد گرامی ہے کہ ان کے دوستوں کا دشمن خدا اور رسولﷺ کا دشمن ہے۔

              فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ’’جو شخص کہ دشمنی رکھے خدا کے کسی دوست کے ساتھ، بے شک اس نے اللہ کے ساتھ لڑائی کا ارادہ کیا۔ تحقیق اللہ دوست رکھتا ہے ایسے برگزیدہ پوشیدہ حال بندوں کو جو نظروں سے اوجھل ہوں، ان کا تذکرہ نہ کیا جائے اور سامنے ہوں تو مخاطب نہ ہوا جائے نہ انہیں پاس بٹھایا جائے حالانکہ ان کے دل ہدایت کے چراغ ہیں‘‘۔

              دوسری جگہ ارشاد عالی ہے: ’’مجھ کو اپنے فقیروں میں ڈھونڈو، بس ان ہی کی بدولت روزی اور نصرت نصیب ہوتی ہیں‘‘۔ (یعنی فقیر میرے دوست ہیں میں ان کے پاس بیٹھتا ہوں اور وہ ایسے ہیں کہ اُن کے طفیل تم کو رزق یا نصرت ملتی ہے)۔

              ایک روز امرائے عرب میں سے کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا ہمارا دل چاہتا ہے کہ ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہوں لیکن یہ شکستہ حال اصحاب صفہ آپ کے ہم نشین ہیں اگر ہمیں تنہائی فراہم کر دی جائے تو ہم آپ سے دینی مسائل حاصل کر لیا کریں گے۔

              اللہ تعالیٰ دانا و بینا، علیم و خبیر ہے۔ جیسے ہی یہ بات ان کے منہ سے نکلی، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

              ’’اے محمدؐ! ان لوگوں کو اپنے سے دور نہ کریں جو اپنے رب کو صبح شام پکارتے ہیں اور اس کی دید کے متمنی رہتے ہیں آپ پر نہیں ہے ان کے حساب میں سے کچھ اور نہ آپ کے حساب میں سے ان پر ہے کچھ کہ آپ ان کو دور کرنے لگیں، پس ہو جائیں آپ بے انصافوں میں سے‘‘۔

              غور طلب بات یہ ہے کہ اگر ان فقراء کو تھوڑی دیر کے لئے ہٹا دیا جاتا تو عرب کے بڑے بڑے امراء مسلمان ہو جاتے لیکن اللہ کی غیرت نے اس کو پسند نہیں کیا کہ اس کے دوستوں کو کوئی حقارت سے دیکھے۔

Topics


نورنبوت نور الٰہی-V1

خواجہ شمس الدین عظیمی

زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور لازوال عیش ہے۔