Topics

دسمبر 1989؁ء۔نور کی لہریں

’’جو لوگ کافر ہیں انہیں تم نصیحت کرو یا نہ کرو، ان کے لئے برابر ہے۔ وہ ایمان نہیں لائیں گے۔‘‘

                ’’خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا دی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا ہے۔ اور ان کے لئے عذاب الیم ہے۔‘‘

                ’’اور بعض لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم خدا پر اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہیں۔ حالانکہ وہ ایمان نہیں رکھتے۔‘‘

                ’’یہ خدا اور مومنوں کو چکما دیتے ہیں مگر اپنے سوا کسی کو چکما نہیں دیتے اور اس سے بے خبر ہیں۔‘‘

                ’’ان کے دلوں میں مرض تھا۔ خدا نے انکا مرض اور زیادہ کر دیا اور ان کے جھوٹ بولنے کے سبب ان کو دکھ دینے والا عذاب ہو گا۔ اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ ڈالو تو کہتے ہیں کہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں۔ دیکھو یہ بلاشبہ مفسد ہیں لیکن خیر نہیں رکھتے۔‘‘

                ’’اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جس طرح اور لوگ ایمان لے آئے تم بھی ایمان لے آئو تو کہتے ہیں بھلا جس طرح بے وقوف ایمان لے آئے اسی طرح ہم بھی ایمان لے آئیں۔ سن لو کہ یہی بے وقوف ہیں لیکن نہیں جانتے۔‘‘

                ’’اور یہ لوگ جب مومنوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے۔ اور جب اپنے شیطانوں میں جاتے ہیں تو کہتے ہیں ہم تمہارے ساتھ ہیں اور محمدﷺ کے پیروکاروں سے تو ہم مذاق کرتے ہیں۔‘‘

                ’’ان سے خدا ہنسی کرتا ہے اور انہیں مہلت دیئے جاتا ہے تا کہ شرارت اور سرکشی میں پڑے رہیں۔‘‘

                ’’کیا یہ لوگ نہیں جانتے کہ جو کچھ یہ لوگ چھپاتے ہیں اور جو کچھ ظاہر کرتے ہیں،  خدا کو معلوم ہے۔‘‘  (سورہ بقرہ۔ ۶ تا ۱۶)

                لوگوں کا ایک ہی مذہب تھا۔ خدا ن ے بشارت دینے والے پیغمبر بھیجے اور ان پر سچائی کے ساتھ کتابیں نازل کیں تا کہ جن امور میں لوگ اختلاف کرتے تھے ان کا فیصلہ کر دے اور اس میں اختلاف بھی انہی لوگوں ن ے کیا جن کو کتاب دی گئی تھی۔ باوجودیکہ ان کے پاس کھلے احکام آ چکے تھے جس پر امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے۔ خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھا دی اور خدا جس کو چاہتا ہے سیدھا راستہ دکھا دیتا ہے۔

                جو لوگ ایمان لاتے ہیں ان کا دوست خدا ہے کہ اندھیرے سے نکال کر روشنی میں لے جاتا ہے اور جو لوگ انکار کرنے والے ہیں ان کے دوست شیطان ہیں کہ ان کو روشنی سے نکال کر اندھیرے میں لے جاتے ہیں۔ یہی لوگ اہل دوزخ ہیں کہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ (سورہ باقہ۔ ۲۵۷)

                اور جو شخص سیدھا راستہ معلوم ہونے کے بعد پیغبر کی مخالفت کرے اور مومنوں ک ے راستے کے سوا دوسرے رستے پر چلے تو جدھر وہ چلتا ہے اسے اُدھر ہی چلنے دیں گے۔ (سورۃ النسائ۔ ۱۱۵)

                روحانی نقطہ نظر سے اللہ رب العزت کے ان ارشادات کی روشنی ہمیں دکھاتی ہے کہ انسان ناقابل تذکرہ شئے تھا۔ اللہ نے اس کے اندر اپنی روح پھونک دی۔ روح پھونکنے کے بعد اس کے اندر چھ حواس بن گئے۔ چھ حواس یہ ہیں۔ ۱۔ اعضائ، ۲۔دیکھا، ۳۔سونگھنا، ۴۔چھونا یا محسوس کرنا، ۵۔چکھنا، ۶۔پانچ حواس کے ادراک کا علم ہونا۔

                روحانی علم کی بنیاد پر نوع انسانی کا ہر فرد روشنیوں سے بنا ہوا ہے اور روشنی کے اوپر نور کی حکمرانی ہے۔ روشنی اور نور چھ دائروں یا چھ نقطوں ۱۔نفس، ۲۔قلب، ۳۔روح، ۴۔سِر، ۵۔خفی، ۶۔اخفیٰ میں تقسیم ہو رہی ہے۔ ان چھ روشن دائروں کے تین یونٹ ہیں۔ یونٹ نمبر۱: روح حیوانی۔ یونٹ نمبر۲:روحانی انسانی، یونٹ نمبر۳:روح اعظم۔

                لوح محفوظ کے قانون کے مطابق نور کی لہریں اطلاع بنتی رہتی ہیں اور یہی اطلاعات نزول کر کے روشنی بن جاتی ہے۔ جہاں نور پہلے مرحلے میں روشنی بنا ہے اس کو (۱) واہمہ کہتے ہیں۔ (۲) دوسرے مرحلے میں خیال۔ (۳) تیسرے مرحلے میں تصور۔ (۴) چوتھے مرحلے میں احساس کا روپ دھار لیتا ہے۔

                واہمہ کا سورس (Source) اخفیٰ ہے۔ خیال کا سورس سِر ہے۔ تصور کا سورس قلب ہے اور احساس یا مادی وجود دیکھنے کا سورس نفس ہے۔ جب کوئی اطلاع آسمان سے نزول کرتی ہے تو اس کے اندر تخریب نہیں ہوتی۔ اور جب یہ اطلاع وارد ہو کر زینہ بزینہ نفس میں داخل ہوتی ہے تو اس میں تعمیر یا تخریب ہوتی ہے۔ اطلاع میں تعمیر یا تخریب کے معنی پہنانے کے لئے انسان کو اختیار دیا گیا ہے۔ ضمیر(قلب) بار بار یہ بتاتا رہتا ہے کہ تخریب غلط طرز عمل ہے اور تعمیر صحیح طرز عمل ہے لیکن جب کوئی انسان اپنے ارادے اور اختیار سے اطلاع کو متواتر تخریب میں بدلتا رہتا ہے تو تخریب کی تاریکی نفس کی لطیف روشنی کو کثیف کر دیتی ہے اور جب یہ سلسلہ طویل ہو جاتا ہے اور کثافت بڑھ جاتی ہے تو کثافت دھواں یا غبار بن کر قلب کو ڈھانپ لیتا ہے۔ اس بلائے ناگہانی سے خود کو محفوظ رکھنے کے لئے ضمیر آدم زاد برادری کو بھلائی کی طرف بڑی شد و مد کے ساتھ متوجہ کرتا ہے لیکن ایک وقت ایسا آ جاتا ہے کہ آدم زاد تعمیری اطلاعات کو قبول ہی نہیں کرتا اور کے اندر سے یقین کا پیٹرن ٹوٹ جاتا ہے۔

                اللہ کی بادشاہی میں رہتے ہوئے بندہ مادر پدر آزاد ہو کر اپنی بادشاہی کے گن گانے لگتا ہے۔ ضمیر صراط مستقیم پر چلنے کی تاکید کرتا ہے مگر وہ جب ہر طرف کثافت دیکھتا ہے تو خاموش ہو جاتا ہے اور صراط مستقیم کی روشنی انسان کی راہنمائی نہیں کرتی۔

                یہی وہ حال ہے جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے مندرجہ بالا آیات اور بالخصوص یہ آیت نازل کی ہے:

                ’’وہ لوگ کافر ہیں۔ انہیں تم نصیحت کرو یا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے وہ ایمان نہیں لائیں گے۔‘‘

                خدا نے ان کے دلوں پر اور کانوں پر مہر لگا دی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا ہے اور ان کے لئے عذاب الیم ہے۔

                خیر و شر اور تعمیر و تخریب دونوں کا تعلق اس بات سے ہے کہ آدم زاد کو خالق کائنات نے اطلاع میں معنی پہنانے کا جو اختیار دیا ہے اسے آدم زاد کس طرح استعمال کرتا ہے۔

                ’’تجھ کو جو نیکی پہنچتی ہے وہ خدا کی طرف سے ہے اور جو مصیبت پہنچتی ہے وہ خود تیری طرف سے ہے۔ کیا جب تم کوکوئی مصیبت پہنچی جس کی دوگنی تم ان کو پہنچا چکے ہو۔ تو تم نے کہا یہ کہاں سے آئی۔ کہہ دے کہ خود تمہاری طرف سے ہے۔ خدا ہر بات پر قدرت رکھتا ہے۔‘‘

                اسلام سے پہلے مجوسیوں کے مشرکانہ عقیدے کی بنیاد اس بات پر تھی کہ…

                خیر و شر کا ایک خالق نہیں ہو سکتا۔ ورنہ ماننا پڑے گا کہ خدا شر کو پیدا کرتا ہے اور یہ ظاہر ہے جو برائی پیدا کرتا ہے وہ برائی کو برا نہیں جانے گا۔ اور جو برائی کو برا نہیں جانے گا وہ خود کیسے اچھا ہو سکتا ہے۔

                روحانی علوم جیسا کہ سب کو معلوم ہے مشاہداتی علوم ہیں۔ علوم کی دو قسمیں نوع انسانی کو ورثہ میں ملی ہیں۔ ایک قسم روحانی علوم (علم حضوری) اور دوسری قسم مفروضہ علوم(علم حصولی)۔ علم حضوری سے مستفیض حضرات کے مشاہدات میں یہ بات آ جاتی ہے کہ کائنات اطلاعات (Informations) کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

                کائناتی اطلاع میں معنی نہیں ہوتے وہ سادہ (Blank) ہوتی ہے۔ مثلاً ہمیں یہ اطلاع ملتی ہے کہ بھوک کو رفع کرنے کے لئے غذا کا استعمال ضروری ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی اطلاع دی گئی ہے کہ حق غصب کر کے بھوک رفع کرنا برائی ہے۔ اور محنت مزدوری کر کے بھوک رفع کرنا اچھائی ہے۔ اپنا مال خرچ کرنا اچھی بات ہے اور کسی کا مال چوری کر کے خرچ کرنا بری بات ہے۔ خرچ کرنا دونوں حالتوں میں مشترک ہے لیکن خرچ کی نوعیت الگ الگ ہے۔ خیر و شر کا فلسفہ اس نوعیت کے اوپر قائم ہے کہ آگ بجائے خود نہ خیر ہے نہ شر۔ اگر اس سے اپنے لئے اور نوع انسانی کے لئے اچھا اور تعمیری کام لیا جائے تو خیر ہے اور اس سے اگر برائی اور تخریبی کام لیا جائے تو شر ہے۔

                جب ہم یہ مان لیتے ہیں اور جس کو ماننا عقلی استدلال اور لاشعوری اعتبار سے ثابت ہے کہ کوئی عمل بذات خود خیر و شر نہیں ہے تو اس کے علاوہ کوئی دوسرا مفہوم نہیں نکلتا کہ خیر و شر دراصل معنی پہنانے سے عمل میں آتا ہے۔

                حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے بندے اور پیغمبر ہیں۔ عیسائی علماء کے ایک گروہ نے عیسیٰ علیہ السلام ابن مریم کو خدا کا بیٹا قرار دے دیا۔ قرآن مجید خیر اور شر کے اس معمہ کو اس طرح سلجھاتا ہے۔

                ’’اے اہل کتاب! اپنے دین میں سے حد سے زیادہ نہ بڑھ جائو۔ اور خدا کی نسبت وہی کہو جو حق ہے۔ مسیح یعنی عیسیٰ علیہ السلام ابن مریم صرف خدا کے پیغمبر ہیں۔‘‘ (النسائ۔ ۲۲)

                مسیح کو خدا کا بندہ ہونے پر ہرگز عار نہیں اور نہ مقرب فرشتوں کو اور جس شخص کو خدا کی بندگی سے عار ہو گا اور بڑائی کرے گا تو خدا سب کو عنقریب اپنے حضور جمع کرے گا۔ وہ لوگ کافر ہیں جو کہتے ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام ابن مریم خدا ہیں۔ کہہ دو کہ اگر خدا یہ چاہے کہ عیسیٰ ابن مریم کو اس کی ماں کو اور دنیا میں جو کچھ ہے سب کو برباد کر دے تو کون ہے جو خدا کو روک لے اور خدا ہی کے لئے آسمان و زمین اور جو چیزیں ان دونوں میں ہیں اور اس کی سب پر حکومت ہے۔ وہ جو چاہے کرے۔ اور خدا ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘ (مائدہ۔۳)

                اور جب خدا کہے گا کہ کیوں عیسیٰ! تم نے لوگوں سے کہہ دیا تھا کہ خدا کو چھوڑ کر مجھ کو اور میری ماں کو خدا کہو۔ عیسیٰ عرض کرینگے کہ سبحان اللہ! میری کیا مجال کہ میں ایسی بات کہوں جس کے کہنے کا مجھے حق نہیں ہے۔ اگر میں نے کہا ہو گا تو ، تُو جانتا ہو گا۔ تُو میرے دل کی بات جانتا ہے اور میں تیرے دل کی بات نیہں جانتا۔ تُو بڑا غیب دان ہے۔ میں نے لوگوں سے صرف وہی کہا تھا جس کا تو نے حکم دیا تھا۔ یعنی یہ کہ خدا کی عبادت کرو جو میرا بھی خدا ہے اور تمہارا بھی خدا ہے۔

Topics


نورنبوت نور الٰہی-V1

خواجہ شمس الدین عظیمی

زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور لازوال عیش ہے۔