Topics
آپ جس شخص سے محبت کرتے ہیں اس سے کبھی کبھی
اپنی محبت کا اظہار بھی کیجئے۔ اظہارِ محبت کا نفسیاتی اثر یہ ہوتا ہے کہ دوست قریب
ہو جاتا ہے اور دونوں طرف سے جذبات و احساسات کا تبادلہ اخلاص و مروت میں غیر معمولی
اضافہ کا سبب بنتا ہے۔ اخلاص و محبت کے جذبات سے دلی لگائو پیدا ہوتا ہے اور پھر یہ
لطیف و پاکیزہ جذبات عملی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں اور دوست آپس میں یک جان و
دو قالب کی مثال بن جاتے ہیں۔ دوستانہ تعلقات کو زیادہ سے زیادہ استوار اور نتیجہ خیز
بنانے کے لئے ضروری ہے کہ آپ اپنے دوستوں کی خدمت کریں۔ تحائف کا تبادلہ کریں۔
جب
کوئی بندہ نوع انسانی کو دوست سمجھ کر اس کی خدمت کو اپنا مشن بنا لیتا ہے تو اس کے
اوپر اللہ کی رحمت کے دروازے کھل جاتے ہیں اور بالآخر کائنات اس کے آگے جھک جاتی
ہے۔ ہمارے اسلاف کا یہ معمول رہا ہے کہ انہوں نے اپنے سے چھوٹے کو ہر اعتبار سے زیادہ
سے زیادہ اونچا اٹھانے کی کوشش کی ہے اور اپنے دوستوں کے لئے وہی کچھ پسند کیا ہے جو
اپنے لئے پسند کیا۔
تمام
لوگوں میں خدا کے نزدیک زیادہ محبوب وہ آدمی ہے جو انسانوں کو زیادہ سے زیادہ نفع
پہنچائے۔ اور نفع پہنچانے والا کوئی بندہ بلا تخصیص مرد و عورت نوع انسانی کا دوست
ہوتا ہے۔
’’ایک
مسلمان دوسرے مسلمان کے لئے عمارت کی طرح ہے، جیسے عمارت کی ایک اینٹ دوسری اینٹ کا
سہارا اور ہر اینٹ دوسری اینٹ کو قوت پہنچاتی ہے۔‘‘
اس
کے بعد آپﷺ نے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں پیوست فرما کر مسلمانوں
کے باہمی تعلق اور اخوت و محبت کی مثال دی۔ (حدیث)
آپﷺ
نے یہ بھی فرمایا:
’’تم
مسلمانوں کو باہم رحم دلی، الفت و محبت اور آپس میں تکلیف و راحت کے جذبات میں ایسا
پائو گے جیسے کہ اگر اس کا ایک عضو بیمار پڑ جائے تو سارا جسم بیماری اور بے چینی میں
اس عضو کا شریک بن جاتا ہے۔‘‘
حق
و صداقت کے پیکر، پیارے نبیﷺ، معلم اخلاق حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیمات پر
عمل پیرا ہو کر مثبت طرز فکر اختیار کیجئے۔ اور دوستوں سے خوش دلی، نرم خوئی اور مسرت
و اخلاص سے ملئے، توجہ اور کھلے دل سے ان کا استقبال کیجئے۔ ملاقات کے وقت اور دوستوں
کے معاملات میں لاپرواہی، بے نیازی اور روکھا پن اختیار نہ کیجئے۔ دوستوں سے لاپرواہی،
بے نیازی اور سپاٹ اور خشک لہجے میں گفتگو کرنا، چہرہ اور پیشانی پر بظاہر نظر نہ آنے
والا منافقت کا عکس ایسی بیماریاں ہیں جو دلوں میں کدورت کو جنم دیتی ہیں اور جس سے
دلوں میں نفرت پیدا ہوتی ہے۔
دوستوں،
عزیزوں، رشتہ داروں اور غیروں سے ملاقات کے وقت مسرت و اطمینان اور انکساری سے بات
کیجئے۔ حزن و ملال اور مردہ دلی کے کلمات ہرگز زبان پر نہ لایئے۔ ایسا انداز اختیار
کیجئے کہ آپ کے ناخوش اور پژمردہ دل دوست بھی اپنے اندر خوشی اور پُرمسرت زندگی کی
لہریں محسوس کریں۔ استقبال کے وقت افسردہ چہرہ آنے والے کے لئے خوشی کی بجائے رنج
و ملال کا باعث بنتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے:
’’میں
تمہیں اس آدمی کی پہچان بتاتا ہوں جس پر جہنم کی آگ حرام ہے اور یہ وہ آدمی ہے جو
نرم مزاج، حلیم الطبع اور نرم خُو ہے۔‘‘
نبی
صلی اللہ علیہ و سلم جب کسی سے ملاقات فرماتے تو پوری طرح اس کی طرف متوجہ ہو جاتے
اور جب کوئی آپ سے بات کرتا تو آپ پوری طرح متوجہ ہو کر اس کی بات سنتے۔
حق
دوستی یہ ہے کہ آپ دوست سے بیزار نہ ہوں اور دوست آپ کی قربت کو اپنے لئے باعث تسکین
جانے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ
ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور
مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی
اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان
کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو
اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں
تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ
باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب
سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور
لازوال عیش ہے۔