Topics
’’وہی تو ہے جس نے تم کو نفسِ
واحد سے پیدا کیا اور اس سے اس کا جوڑا بنایا تا کہ اس سے سکون پائیں۔ جب وہ اس (بیوی)
کو ڈھانپ لیتا ہے تو اس کو ہلکا بوجھ ہوجاتا ہے اور وہ اس (بوجھ) کے ساتھ چلتی پھرتی
ہے۔ پھر جب بوجھل ہو جاتی ہے تو دونوں (میاں بیوی) اپنے پروردگار سے التجا کرتے ہیں
کہ اگر تو ہمیں صالح (اولاد) دے تو ہم تیرے شکرگزار ہوں گے ‘‘۔ (سورہ اعراف۔ 189)
’’اور اسی کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس
نے تم میں تمہاری ہی جنس سے عورتیں پیدا کیں تا کہ تم ان سے سکون پائو اور تم میں محبت
اور رحمت پیدا کر دی۔ بے شک اس میں غور کرنے والوں کے لئے نشانیاں ہیں‘‘۔ (سورہ روم۔ 21)
’’اور ان (بیویوں) کے ساتھ حسنِ سلوک
سے رہو۔ اگر وہ تم کو پسند نہ ہوں تو عجب نہیں کہ تم جس چیز کو ناپسند کرتے ہو اللہ
اس میں خیرِ کثیر پیدا کر دے‘‘۔ (سورہ النسائ۔
19)
بردباری، تحمل اور حکمت کی روش یہ ہے
کہ آدمی درگزر سے کام لے اور خدا پر بھروسہ رکھتے ہوئے اپنی بیوی کے ساتھ خوش دلی
سے نباہ کرے۔ ہو سکتا ہے اللہ رب العزت اس عورت کے ذریعے مرد کو ایسی بھلائیوں سے نواز
دے جن تک مرد کی پہنچ نہ ہو۔ دیندار عورت اپنے ایمان، سیرت اور اخلاق کے باعث پورے
خاندان کے لئے رحمت بن جاتی ہے۔ اس کی ذات سے کوئی ایسی سعید روح وجود میں آ سکتی
ہے جو ایک عالم کے لئے مشعلِ راہ ہو۔ عورت کے کسی ظاہری عیب کو دیکھ کر بے صبری کے
ساتھ ازدواجی تعلقات کو برباد نہ کیجئے۔ بلکہ حکیمانہ طرز عمل سے آہستہ آہستہ گھر
کی مکدر فضا کو زیادہ سے زیادہ خوشگوار بنایئے۔
سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا
ارشاد ہے:
’’دنیا کی چیزوں میں سے اچھی اور نیک
بخت بیوی مرد کی اصلاح حال کے لئے ایک موثر ذریعہ ہے‘‘۔
بیوی خاوند کو جنت سے قریب کر دیتی ہے۔
اس کی قسمت میں دنیا میں خدا مرد کو رزق اور خوشحالی سے نوازتا ہے۔ خوش خلقی اور نرم
مزاجی کو پرکھنے کا اصل میدان گھریلو زندگی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہی مومن اپنے ایمان
میں کامل ہے جو گھر والوں کے ساتھ خوش اخلاقی، خندہ پیشانی اور مہربانی کا برتائو رکھے۔
گھر والوں کی دل جوئی کرے اور پیار و محبت سے پیش آئے۔ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام
نے ازواج مطہرات کے ساتھ حسنِ سلوک کا قابلِ
تقلید نمونہ پیش کیا۔ آپﷺ گھر میں داخل ہوئے تو اتنی آواز سے السلام علیکم کہتے کہ
زوجہ جاگتی ہوں تو سُن لیں اور سو گئی ہوں تو نیند خراب نہ ہو۔ آپﷺ حسبِ موقع کام
کاج میں ہاتھ بٹاتے۔ کوئی کام وقت پر نہ ہوتا تو ناراض ہونے کے بجائے نرمی سے سمجھاتے۔
ایک مرتبہ ایک صاحب نے سیدنا حضور علیہ
الصلوٰۃ والسلام کی دعوت کی۔ حضورﷺ نے دریافت فرمایا: ’’عائشہؓ کی بھی دعوت ہے؟‘‘ ان
صاحب نے کہا۔ نہیں۔ آپﷺ نے اس دعوت کو قبول نہیں فرمایا۔ وہ صاحب واپس لوٹ گئے اور
دوبارہ آ کر حضور پاکﷺ کو کھانے کی دعوت دی اور کہا کہ حضرت عائشہؓ کی بھی دعوت ہے۔
اس دعوت کو حضورﷺ نے قبول فرما لیا۔ شوہر کی طرح بیویوں پر بھی ذمہ داریاں عائد ہوتی
ہیں۔ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک فرمان بیویوں کے لئے مشعلِ راہ ہے:
’’مومن کے لئے سب سے زیادہ فائدہ مند
چیز نیک بیوی ہے کہ اگر شوہر اس کو کوئی حکم دے تو اس کی اطاعت کرو۔ اگر اس پر نظر
ڈالے تو وہ اس کو اچھی معلوم ہو اگر کسی بات پر کوئی قسم کھائے تو بیوی اس قسم کو سچ
کردکھائے یعنی شوہر کی بات کا پاس رکھے۔ شوہر اگر کہیں سفر پر جائے تو پاکدامن رہے۔
اس کے مال میں خیانت نہ کرے‘‘۔
خواتین کو چاہئے کہ وہ دین کے حکام اور
تہذیب سیکھیں۔ اسلامی اخلاق سے آراستہ ہوں۔ ہر ممکن کوشش کریں کہ وہ ایک اچھی بیوی
اور اچھی ماں ثابت ہوں۔ صفائی، سلیقہ اور آرائش و زیبائش کا پورا پورا اہتمام کریں۔
گھر کو صاف ستھرا رکھیں، گھر میں چیزوں کو سلیقے سے سجائیں اور سلیقے سے استعمال کریں۔
صاف ستھرا گھر، قرینے سے سجے صاف ستھرے
کمرے، پاک وصاف باورچی خانہ، گھریلو کاموں میں سلیقہ اور سگھڑ پن، بنائو سنگھار کی
ہوئی بیوی کی پاکیزہ مسکراہٹ سے نہ صرف گھریلو زندگی پیار و محبت اور خیر و برکت سے
مالا ہوتی ہے بلکہ یہ خدا کو خوش کرنے کا بھی ایک ذریعہ ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ
ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور
مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی
اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان
کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو
اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں
تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ
باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب
سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور
لازوال عیش ہے۔