Topics

جون 1984؁ء۔ایمان اور محبت

ایمان ایک ایسا جوہر ہے جس کی چاشنی اور حلاوت دنیا کی ہر چیز سے زیادہ ہے مگر یہ حلاوت اور چاشنی اسی بندے کو حاصل ہوتی ہے جو دنیا کی ہر چیز سے زیادہ اللہ کو محبوب رکھتا ہے۔ وہ بندہ جو اللہ سے زیادہ دوسری چیزوں کو عزیز رکھتا ہے، اللہ کا سچا بندہ ہے اور شیدائی نہیں ہے۔ جب ہم محبت کا تذکرہ کرتے ہیں تو محبت ہم سے کچھ تقاضے کرتی ہے اور وہ تقاضہ یہ ہے کہ محبت ہمیشہ قربانی چاہتی ہے۔

                سب جانتے ہیں کہ محبت ایک ایسی قلبی کیفیت کا نام ہے جو ظاہرہ آنکھوں سے نظر نہیں آتی لیکن انسان کا عمل اس بات کی شہادت فراہم کرتا ہے کہ اس کے اندر محبت کا سمندر موجزن ہے یا نہیں۔ ایک آدمی زبانی طور پر اس بات کا دعویٰ کرتا ہے کہ میں اپنے محبوب سے محبت کرتا ہوں لیکن جب ایثار اور قربانی کا وقت آتا ہے تو وہ اپنے قول میں سچا ثابت نہیں ہوتا۔ اس کی محبت ہرگز قابل تسلیم نہیں سمجھی جائے گی۔ خدائے تعالیٰ سے جو لوگ محبت کرتے ہیں ان سے اللہ تعالیٰ بھی محبت کرتا ہے اور جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت کرتے ہیں تو اس کے دل میں محبت بھر دیتے ہیں۔ محبت کی یہ خوشبو جب آسمان کی رفعتوں کو چھو جاتی ہے تو آسمان والے بھی اس بندے سے محبت کرنے لگتے ہیں اور جب محبت کی یہ خوشبو زمین کی چاروں سمت کو محیط ہو جاتی ہے تو زمین پر بسنے والا ہر فرد خواہ وہ انسان ہو، پرندہ ہو، چرندہ ہو، درندہ ہو اس شخص سے والہانہ محبت کرتا ہے۔

                رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے:

                ’’جب اللہ اپنے کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو حضرت جبرائیل علیہ السلام کو بلا کر کہتا ہے میں فلاں بندے سے محبت کرتا ہوں، تم بھی اس سے محبت کرو۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام اس سے محبت کرنے لگتے ہیں اور عالم آسمان میں اعلان کرتے ہیں کہ خدا اپنے فلاں بندے سے محبت کرتا ہے تم بھی اس سے محبت کرو تو آسمان والے بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں۔ پھر اس بندے کے لئے زمین والوں کے دلوں میں قبولیت اور عقیدت پیدا کر دی جاتی ہے۔

                جب اللہ کا تذکرہ کیا جاتا ہے تو ایک ہی بات سامنے آتی ہے کہ اللہ اپنی مخلوق سے محبت کرتا ہے۔ یہ محبت ہی تو ہے کہ مخلوق کو زندہ رکھنے کے لئے اللہ طرح طرح کے وسائل پیدا کرتا ہے۔ زمین کو اس نے حکم دے رکھا ہے کہ میری مخلوق کے لئے انواع و اقسام کی غذائیں پیدا کر، سورج کو حکم دیا کہ فضا کو مسموم ہونے سے محفوظ کر دے کہ میری مخلوق بیمار نہ ہو جائے، چاند کو حکم دیا کہ اپنی ٹھنڈی کرنوں سے پھلوں میں شیرینی پیدا کر تا کہ میری مخلوق خوشنما، خوش ذائقہ اور شیریں پھل کھاتی رہے۔ ہوا کو حکم دہا ہے کہ سبک خرامی کے ساتھ چلتی رہ تا کہ میری مخلوق  کی زندگی میں کام آنے والی بنیادی شئے آکسیجن فراہم ہوتی رہے۔ زمین کو اللہ نے نہ اتنا سخت بنایا ہے کہ آدمی جب اس پر چہل قدمی کرے تو اس کے پر دکھ جائیں، نہ زمین کو اتنا نرم بنایا ہے کہ جب اللہ کی مخلوق زمین پر چلے تو اس کے پیر دھنس جائیں۔

                یہ اللہ کی محبت ہی تو ہے کہ اس نے اپنی قدرت کو پابند کر دیا ہے کہ وہ ایک توازن کے ساتھ معین مقداروں کے ساتھ مخلوق کی پرورش کرتی رہے۔ یہ اللہ ک ی محبت ہی تو ہے کہ اس نے اپنی مخلوق کو جھلسا دینے والی آگ کی تپش سے محفوظ رکھنے کے لئے ایک نظام  بنایا، ایک نظام قائم کیا اور اس نظام سے اپنی مکلف مخلوق کو متعارف کرانے کے لئے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر بھیجے۔ اس سے زیادہ محبت کی اور کیا روشن مثال ہو سکتی ہے کہ اللہ نے اپنے رحمت اللعالمین محبوبﷺ کو مخلوق کے درمیان بھیج دیا اور یہ اللہ کی رحمت ہی تو ہے کہ اس نے ماں کے دل میں بچے کی محبت اس طرح پیوست کر دی کہ ماں اپنے خون کا ایک ایک قطرہ بچے کے اندر انڈیلتی ہے اور پھر بھی خوش ہے۔

                اللہ جب کسی سے محبت کرتا ہے تو یہ بھی چاہتا ہے کہ اللہ سے محبت کی جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد گرامی ہے:

                ’’جب کسی بندے نے اللہ کے لئے کسی بندے سے محبت کی تو اس نے اپنے رب کی تعظیم کی۔‘‘

                قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ اپنے محبوب خاتم النبیین، ختم المرسلین، رحمت اللعالمینﷺ سے فرماتا ہے:

                ’’اے ہمارے چہیتے محبوبﷺ! آپﷺ کہہ دیجئے کہ اگر تم خدا سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو، خدا تم کو اپنا محبوب بنالے گا۔‘‘

                خدا سے محبت کے دعوے کی تکمیل اسی وقت ہوتی ہے اور یہ دعویٰ خدا کی نظر میں اسی وقت قابل قبول ہے جب ہم خدا کے رسولﷺ کی پیروی کریں۔

Topics


نورنبوت نور الٰہی-V1

خواجہ شمس الدین عظیمی

زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور لازوال عیش ہے۔