Topics
’’اور جب کہا تمہارے پروردگار
نے فرشتوں سے کہ میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں۔ انہوں نے کہا کیا ایسے کو
نائب بناتا ہے جو فساد کرے گا اور خون بہائے گا جبکہ ہم تیری تعریف کے ساتھ تسبیح و
تقدیس کرتے ہیں۔ اللہ نے کہا میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔ اور اس نے آدم کو
سب اسماء کا علم دیا پھر ان کو فرشتوں کے سامنے کیا اور کہا کہ اگر تم سچے ہو تو مجھے
یہ اسماء بتائو۔ اُنہوں نے کہا کہ تو پاک ہے جتنا تو نے ہمیں علم دیا ہے اس کے سوا
ہمیں کچھ معلوم نہیں۔ بے شک تو علیم حکمت والا ہے ‘‘۔ (سورۂ بقرہ۔ 30تا 31)
اللہ تعالیٰ نے آدم کو اپنی نیابت عطا
فرمائی تو فرشتوں نے عرض کیا کہ یہ زمین پر فساد پھیلائے گا۔ یہ بتانے کے لئے کہ آدم
کے اندر شر اور فساد کے ساتھ فلاح و خیر کا سمندر بھی موجزن ہے۔ تفکر کرنے سے یہ بات
سامنے آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کائناتی پروگرام دو طرزوں یعنی خیر و شر پر بنایا
ہے۔ اس لئے کہ فرشتوں نے جو کچھ کہا اس کی تردید نہیں کی گئی ہے۔ بات کچھ یوں بنی کہ
آدم کو جب تک اللہ تعالیٰ کی صفات کا علم منتقل نہیں ہوتا وہ سر تا پا شر اور فساد
ہے اور تخلیق کا علم منتقل ہونے کے بعد وہ سراپا خیر ہے۔
آدم کے وجود سے پہلے فرشتے موجود تھے
جن میں شر اور فساد نہیں ہے۔ پس ایک مخلوق پیدا کی گئی جس میں شر اور خیر دونوں عناصر
پورے پورے موجود ہیں تا کہ یہ مخلوق شر کو نظر انداز کرے، خیر کا پرچار کرے۔ خود بھی
خیر (صراط مستقیم) پر قائم رہے اور اپنے بھائی بہنوں کو بھی دعوت دے یہی وہ دعوت ہے
جس کو عام کرنے کے لئے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر بھیجے گئے اور یہی وہ دعوت ہے جو
تبلیغ ہے۔
سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا
ارشاد ہے:
’’قسم ہے اللہ کی جس کے قبضے میں میری
جان ہے کہ اگر تم لوگوں کو اچھی باتوں کی ہدایت کرتے رہو اور بُری عادتوں سے روکتے
رہو تو اس میں تمہاری خیر ہے ورنہ تم پر ایسا وقت آ جائے گا کہ اگر تم دعا کرو گے
تو تمہاری دعا قبول نہیں ہو گی‘‘۔
دعوت اور تبلیغ دین حضورﷺ کا مشن ہے۔
اس لئے پورا خیال رکھئے کہ اس دعوت کا طریقِ کار حکمت اور سلیقہ سے مزین ہے اور ہر
لحاظ سے موزوں، بروقت اور پروقار ہو۔ مخاطب کی فکری اور ذہنی کیفیات کے مطابق بات کیجئے۔
لوگوں میں حسنِ ظن، خیر خواہی اور خلوص کے جذبات ابھاریئے۔ ہٹ دھرمی، تعصب اور نفرت
کو ختم کیجئے۔
کسی کو تبلیغ کرتے ہوئے عذاب اور خوف
پر اتنا زور نہ دیجئے کہ لوگ اللہ کی رحمت سے نااُمید ہو جائیں بلکہ عذاب اور خوف کے
ایک مختصر پہلو کے مقابلے میں اللہ کے لامحدود اور وسیع دامن رحمت کو پیش کیجئے جس
میں پوری کائنات سجائی ہوئی ہے اور جس کی بنیاد پر تمام مخلوقات کا وجود ہے۔
ہمارے لئے ضروری ہے کہ جو کچھ ہم دنیا
کے سامنے پیش کریں اس کا مخاطب سب سے پہلے اپنی ذات کو بنائیں جن حقیقتوں کو قبول کرنے
میں ہم دنیا کی بھلائی دیکھیں پہلے خود کو اس کی تصویر بنائیں۔ انفرادی عمل، خانگی
تعلقات، اخلاقی معاملات اور اللہ سے ربط کے معاملے میں یہ ثابت کریں کہ ہم جو کچھ کہہ
رہے ہیں اس کا نمونہ ہم خود ہیں۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے سفرِ معراج
کے بیان میں کچھ لوگوں کی درد ناک حالت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
’’میں نے جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا
یہ کون لوگ ہیں؟ جبرائیل ؑ نے جواب دیا یہ آپ کی اُمّت کے وہ مقررین ہیں جو لوگوں
کو نیکی اور تقویٰ کی تلقین کرتے تھے اور خود کو بھولے ہوئے تھے‘‘۔
اللہ کی رضا کے حصول اور اس کے راستے
کی طرف دعوت دینے کا موثر ذریعہ مخلوق خدا کی بے لوث خدمت ہے۔ ایسی خدمت جو خالص انسانی
قدروں اور خلوص و محبت اور خیر خواہی کے جذبات پر قائم ہو نہ کہ بدلے اور گھٹیا سودے
بازی پر۔ اللہ کی مخلوق کا تعلق استوار رکھنا اور اللہ کی مخلوق ہونے کے ناطے سے ان
کی خدمت کرنا خالق کی رضا اور خوشنودی کے حصول کا بہترین ذریعہ ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ
ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور
مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی
اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان
کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو
اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں
تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ
باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب
سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور
لازوال عیش ہے۔