Topics

مئی1992؁۔مستجاب الداعوات

اپنے لباس کو پاک صاف رکھو۔ نبی مکرمﷺ نے فرمایا:

                جس نے حرام مال سے قمیض بنائی اور پہنی اس کی نماز قبول نہیں ہو گی۔

                اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

                اس مسجد میں ایسے مرد ہیں جو پاکیزگی کو دوست رکھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ پاک و صاف رہنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔ اور اہل تقویٰ سحر کے وقت اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں۔

                پس اللہ تعالیٰ کو خلوص دل سے پکارو۔ اور حضورﷺ نے فرمایا: ’’اعمال کا دارومدار نیت پر ہے۔‘‘

                ہاتھوں کو پھیلائے، شانوں تک اٹھائے اور کھول کر رکھے اور ادب خشوع و خضوع کا خیال رکھے اور اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنی کے ساتھ دعا مانگے اور منقولہ دعائیں پڑھے اور انبیاء اور اولیاء اللہ کے توسل سے اور بڑھی دھیمی آواز سے دعا کرے اور دعا ختم کر کے ہاتھوں کو چہرے پر پھیر دے۔

                چیزوں کی طلب نہ ہو اور گناہ کرنے کا مطالبہ نہیں ہونا چاہئے، دعا کے قبول ہونے میں جلدی نہ کریں۔ یہ بھی نہیں ہونا چاہئے کہ دعا قبول نہ ہونے کی وجہ سے دعا کرنا ہی چھوڑ دی جائے۔ اللہ تعالیٰ قادر مطلق ہے وہ خوب جانتا ہے کہ کس وقت بندہ کی کیا ضرورت ہے۔

                مستجاب الداعوات ہونے کیلئے متقی ہونا شرط ہے اور متقی کی تعریف حضور صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے یوں فرمائی۔

                ’’آدمی اس وقت تک متقی نہیں ہو سکتا جب تک اس چیز کو ترک نہ کر دے جس میں حرام کا شبہ ہو۔‘‘

                انسان کی حقیقی قدر و قیمت اور اصلی عظمت و برتری کا اندازہ اس وقت ہو گا جب اس کا اعمال نامہ مالک حقیقی کے سامنے پیش ہو گا اس لئے حقیقی کامرانی و فلاح اور حقیقی عظمت و شان وہی ہے جسے اخروی کامیابی اور ابدی رحمت کہا جاتا ہے۔ اس دنیا کی چند روزہ شان و شوکت فریب نظڑ اور غرور نفس کے سوا کچھ نہیں۔

                حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے پاس عرش کے دائیں جانب بیٹھنے والے کچھ لوگ ہوں گے جو منبروں پر بیٹھے ہوں گے منبر نور کے ہوں گے، ان کے چہرے منور ہوں گے، وہ نہ انبیاء ہوں گے، نہ شہداء ہوں گے، نہ صدیقین۔ عرض کیا گیا۔ حضورﷺ وہ کون لوگ ہوں گے؟ تین بار فرمایا۔ وہ آپس میں اللہ کیلئے باہم محبت کرنے والے لوگ ہوں گے۔

                حضور نبی مکرمﷺ نے فرمایا اللہ کے کچھ بندے ایسے ہیں جو انبیاء نہیں مگر قیامت کے دن انبیاء اور شہید ان پر رشک کریں گے۔ عرض کیا کہ وہ کون لوگ ہیں؟ فرمایا۔ وہ ایسے لوگ ہیں کہ اللہ نے ان کے دلوں میں نور بھر دیا ہے۔ وہ اس نور کی وجہ سے ایک دوسرے کو دوست رکھتے ہیں، نہ ان میں خونی رشتہ ہے، نہ نسب کا اشتراک ہے، ان کے چہرے نورانی ہوں گے، وہ نور کے منبروں پر بیٹھے ہوں گے، مرنے کے بعد جب لوگ خوفزدہ ہوں گے انہیں کوئی خوف نہ ہو گا اور جب لوگ غمگین ہوں گے انہیں کوئی غم نہ ہو گا پھر حضور صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی:

                ’’اے گروہ انبیاء پاکیزہ رزق کھایئے اور نیک عمل کیجئے اور اے ایمان والو، زمین میں سے پاکیزہ اور حلال چیزیں کھائو۔‘‘ (قرآن)

                جب یہ آیت حضور صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے سامنے پڑھی گئی تو سعد بن ابی وقاصؓ کھڑے ہو گئے اور عرض کیا کہ حضورﷺ میرے حق میں دعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ مجھے مستجاب الدعوات بنا دے۔ حضورﷺ نے فرمایا کہ اے سعد رزق حلال کھائو، مستجاب الدعوات بن جائو گے۔ قسم اس ذات کی جس کے قبضہ میں محمدﷺ کی جان ہے۔ انسان جب لقمہ حرام پیٹ میں ڈالتا ہے تو چالیس دن تک اس کا کوئی عمل قبول نہیں ہوتا اور جس انسان کا گوشت حرام غذا سے بنا ہو اس کیلئے آگ ہی بہتر ہے۔

                فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے اہل ایمان! پاکیزہ رزق کھائو  جو ہم نے تمہیں دیا ہے پھر آپﷺ نے اس کا ذکر کیا جو طویل سفر کرتا ہے، جس کے بال پراگندہ اور غبار آلود ہیں، آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا اٹھا کر اللہ سے دعا کرتا ہے حالانکہ اس کا کھانا پینا حرام ہے، لباس حرام ہے، غذا حرام ہے، پھر اللہ اس کی دعائیں کیوں قبول کرے گا۔

                اللہ تعالیٰ  نے فرمایا ہے کہ لباس تقویٰ کا اچھا ہے اور فرمایا اے نبیﷺ یاد رکھو اللہ کے دوستوں پر نہ کوئی اندیشہ ہے، نہ وہ مغموم ہوتے ہیں۔

٭٭٭٭٭

                مال و زر کی فضول خرچی اور اسراف سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے اور قرآن میں بتایا ہے کہ

                اللہ تعالیٰ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔

                یاد رکھئے!

                املاک کی فضول خرچی ہوتی ہے اور صحت کا بھی اسراف ہوتا ہے۔

                صحت خالق کائنات اللہ کی دی ہوئی عظیم نعمت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی بخشی ہوئی نعمت صحت کو اگر صحیح معنوں میں استعمال نہ کیا جائے تو یہ عمل اللہ کیلئے ناپسندیدہ ہے۔ صحت مند آدمی جب بے احتیاطی اور بدپرہیزی سے بیمار ہو جاتا ہے تو طرح طرح کی تکلیفیں لاحق ہو جاتی ہیں اور جس طرح خوبصورت کتاب کو دیمک چاٹ جاتی ہے اس طرح آدم زاد کو بیماری چاٹ جاتی ہے۔ صحت کے تقاضوں، صحت کے اصولوں سے انحراف کرنا، خدا کی ناشکری تو ہے ہی کفرانِ نعمت اور بے حسی بھی ہے۔ صحت مند آدمی میں عقل و شعور کا جوہر نمایاں ہوتا ہے اور بیمار آدمی میں عقل و شعور متاثر ہوتا ہے۔ صحیح قوت فیصلہ کیلئے ضروری ہے کہ آدم زاد روحانی اور جسمانی طور پر صحت مند ہو۔ کمزور مریض انسان کا دفاع بھی کمزور ہوتا ہے۔ مریض انسان حوصلوں، امنگوں، ولولوں اور زندہ دلی سے محروم ہوتا ہے۔ مریض آدمی کے اندر قوت ارادی مفلوج ہو جاتی ہے۔ جذبات سرد اور مضمحل رہتے ہیں۔ مریض آدمی خود اپنے لئے ایک لاش بن جاتا ہے۔ مریض افراد کی قوم بھی مریض ہوتی ہے اور صحت مند افراد کی قوم صحت مند ہوتی ہے۔ زندہ قومیں ہی دنیا میں اپنی اعلیٰ کارکردگی، بہترین صلاحیتوں اور مخلصانہ قربانیوں سے مقام حاصل کرتی ہیں۔

                خوش و خرم رہنا، خوش اخلاقی، مسکراہٹ بھری زندگی، پُرکشش، پُروقار گفتگو، زندہ دلی سے آراستہ زندگی، شگفتہ دہن اور محبت و ایثار، آدم زاد کو صحت مند رکھتا ہے۔

                اس کے برعکس بدخواہی، تنگ ظرفی، مردہ دلی، غم، غصہ، رنج و فکر، نفرت، حسد، لالچ آدمی کے اندر دماغی الجھنیں پیدا کرتے ہیں، دماغی الجھنیں پہلے معدہ کو پھر پورے جسمانی نظام کو خراب کر دیتی ہیں۔

                نبی آخر الزماںﷺ، ہادیِ برحق، حکیم انسانیت، فخر دو جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے:

                سیدھی سادی زندگی اور میانہ روی اختیار کرو۔ اور خوشی خوشی زندہ رہو۔

                حضرت عمرؓ نے ایک بار ایک جوان آدمی کو دیکھا کہ وہ نڈھال بیماروں کی طرح سڑک پر جا رہا تھا۔ آپﷺ نے اسے روکا اور پوچھا۔

                کیا تو بیمار ہے؟

                اس نے جواب دی……نہیں میں بیمار نہیں ہوں۔

                آپﷺ نے غصہ سے اپنا درہ اٹھایا اور اس کو ڈانٹتے ہوئے کہا۔

                راستہ پوری قوت کے ساتھ جوان مردوں کی طرح چلو……

                سیرت طیبہ کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوا ہے کہ ہمارے آقا حضور نبی کریمﷺ جب راستہ چلتے تھے تو نہایت جمے ہوئے قدم رکھتے تھے اور اس طرح قوت کے ساتھ چلتے تھے کہ جیسے کسی نشیب میں اتر رہے ہوں۔

                رسول مکرمﷺ، برحق پیغمبر، خاتم النبیینﷺ نے اپنی امت کو یہ دعا کرنے کی تلقین فرمائی ہے۔

                اے اللہ! میں اپنے آپ کو تیری پناہ میں دیتا ہوں۔ پریشانی سے غم سے بیچارگی سے، سستی سے، کاہلی سے، قرض کے بوجھ سے اور اس بات سے کہ لوگ مجھے دبا کر رکھیں میری حفاظت فرما

Topics


نورنبوت نور الٰہی-V1

خواجہ شمس الدین عظیمی

زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور لازوال عیش ہے۔