Topics
کون نہیں جانتا کہ انسانیت کی سب سے بڑی خدمت
یہ ہے کہ نوع انسان اپنے وجود کا ادراک کرے۔ خود کو پہچانے اور نوع انسانی کے ممتاز
افراد ایسے اصول و ضابطوں پر عمل درآمد کرائیں جن ضابطوں کی پیروی سے لوگوں کی اخلاقی
اور روحانی تربیت ہوتی ہے۔ ان برائیوں کو دور کیا جائے جو برائیاں آدم زاد اور حیوانات
میں مشترک تھیں۔ ایسا ضابطہ حیات تشکیل دیا جائے جس پر چل کر آدم زاد صحیح معنوں میں
انسان بن جائے۔
جب
سے زمین آدم کا مسکن قرار پائی ہے۔ ہر ذی حواس انسان نے اپنی اپنی صلاحیتوں کے مطابق
انسانی عروج کیلئے کوشش اور جدوجہد کی۔ لیکن وہ اپنی تمام تر ذہنی کاوشوں، موشگافیوں
اور فلسفوں کے باوجود انسان کو کوئی ایک متعین راستہ نہیں دکھا سکا۔
کائنات
تخلیق کرنے والی ہستی نے انسانی شرف، عقل و دانش اور علم و عرفان کو نمایاں کرنے اور
دوسری تمام مخلوقات سے باعزت کرنے کیلئے اور انسان کی ہمہ جہت پوری زندگی سنوارنے پاکیزہ
اور منزہ کرنے کیلئے انبیاء کرام کا سلسلہ شروع کیا۔ انبیاء نے حیوانات سے آدم زاد
کو ممتاز کرنے کیلئے اچھائی اور برائی کا تصور دیا۔ زندگی گزارنے کا ڈھنگ، رہن سہن
کے معاملات سونے جاگنے کے آداب اور کھانے پینے کے طریقے سکھائے۔ انبیاء کا یہ سلسلہ
حضرت آدم سے شروع ہوا اور آخری نبی صلی اللہ علیہ و سلم تک قائم رہا۔
محمد
رسول اللہ نے بتایا:
پہلے
بھی اسلام کے داعی آ چکے ہیں اور زمین کے ہر خطے پر اللہ نے آدم زاد کی اصلاح کیلئے
پیغمبر بھیجے ہیں لیکن آدم زاد نے پیغمبروں کے بنائے ہوئے توحید کے سبق کو بھلا دیا
ہے۔ اپنی خواہشات کی پروی میں توحید سے انحراف کر کے چاند سورج ستاروں ان دیکھے دیوتائوں
اور دیونیوں کو توحید میں شریک ٹھہرا لیا۔ اور آدم زاد توحید کے دائرے سے نکل کر تین
سو ساٹھ معبوتوں کے سامنے جھک گیا۔
چھٹی
صدی عیسوی میں دو سپر طاقتوں کا تذکرہ عام تھا۔ فارس کا مذہب مجوسیت تھا۔ جو عراق سے
لے کر ہندوستان کی سرحدوں تک پھیلا ہوا تھا۔
روم
کا مذہب عیسائیت تھا جو یورپ اور ایشیا اور افریقہ تک پھیلا ہوا تھا۔ ان دو سپر پاورز
کے علاوہ یہود اور ہندو بھی اہمیت کے حامل تھے۔ ہر ایک کو اپنی اپنی بڑائی کا زعم تھا۔
اور ہر ایک صداقت و وحدانیت کا پیامبر بنا ہوا تھا۔
بادشاہ،
امراء اور فراعین اس درجے گم کردہ راہ ہو گئے تھے کہ رعایا سے خود کو خدا کہلاتے تھے
پست عقل اتنے تھے کہ انہیں یہ بھی نہیں سوجھتا تھا کہ وہ عوام کی طرح ایک مجبور اور
بے بس انسان خدا کس طرح ہو سکتا ہے۔ امرائ، بادشاہ اور فراعین بھی عام لوگوں کی طرح
کھاتے پیتے اور بول و براز کرتے تھے۔ عوام کی طرح نیند بھی ان کی مجبوری تھی۔ یہی وہ
لوگ تھے جو پستی کے آخری نقطے پر پہنچ چکے تھے۔
حکومت
میں بدنظمی دشمن کا خوف عدم تحفظ کا احساس ملک کے اندر اور باہر بدامنی، اخلاقی انتہائی
گراوٹ، مادیت پرستی، جھوٹ، نفرت، تفرقہ بازی اور اقرباء پروری عام ہو گئی تھی۔
عیسائی
مذہب کا حال یہ تھا کہ……
سیکڑوں
مذہبی فرقے بن گئے تھے۔ قبر پرستی عام تھی۔ پیروں، فقیروں کو سجدے کئے جاتے تھے۔ حلال
و حرام کی تمیز تو تھی۔ زبانی کلامی تذکرہ بھی ہوتا تھا مگر کہیں حلال روزی کا تصور
باقی نہیں تھا۔ سود کی لعنت عام تھی۔ وہ جانتے تھے کہ مذہبی نقطہ نظر سے سودی لین دین
کرنے والوں کو اللہ نے اپنا دشمن قرار دیا ہے۔ لیکن وہ اللہ کی اس بات کا اعتبار نہیں
کرتے تھے کہ اللہ نے انہیں دشمن قرار دیا ہے۔ ان کی طرز فکر گہنا گئی تھی۔ اللہ انہیں
دشمن قرار دے رہا تھا اور وہ لوگ عبادات میں مصروف رہتے تھے۔ دین داری کا عروج یافتہ
تصور یہ تھا کہ دنیا سے بیزار ہو کر آدمی جنگلوں میں نکل جائے جب کہ مذہبی دانشور
خود کو معابد کے نگراں کہہ کر عوام کی دولت پر عیش کرتے تھے۔ ہر مذہب کے دانشوروں کا
لباس، رہن سہن عوام سے مختلف تھا۔
کہا
جاتا ہے……ہندوستان میں دیوتائوں کی تعداد 33کروڑ تک پہنچ گئی تھی۔ مندروں کے پجاریوں
میں ذات پات کی تفریق عام تھی۔ قوانین ایسے بنائے گئے تھے کہ عوام کو انصاف نہیں ملتا
تھا۔ خاندان کی نسل در نسل کی حکمرانی تھی۔
عرب
کا یہ حال تھا کہ فرشتوں کو خدا کی بہن بیٹیاں کہتے تھے۔ بت پرستی اتنی عروج پر تھی
کہ خوبصورت پتھر پڑا مل جاتا تھا تو اسے پوجنا شروع کر دیتے تھے۔ پانی سے مٹی گوندھ
کر خود بت بناتے تھے اور اس بت پر بکری کا دودھ چھڑک کر اس کا طواف کرتے تھے۔
جب
زمین پر اس حد تک تاریکی پھیل گئی اور دنیا توحید کے تصور سے خالی ہونے لگی تو کائنات
تخلیق کرنے والی ہستی نے اپنے محبوب (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ) کو ہدایت و رہنمائی
کیلئے منتخب فرمایا۔ اور عظیم پیغمبر محب عظیم داعی نے توحید کی دعوت کو عام کیا۔ اس
دعوت میں جو تکالیف توحید کے داعی کو پیش آئیں ان سے تاریخ کے صفحات سیاہ ہیں۔ محمد
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بڑی سے بڑی تکلیف اٹھا کر قربانی دے کر قوم کو امامت
کے رتبے پر سرفراز کیا۔ قوم کے اندر سے بت پرستی ختم کی۔ خاندانی رقابتوں کو نظر انداز
کر کے اپنے قبیلے کے خون بہا معاف کئے اور ایک وقت آیا کہ اسلام کی تعلیمات ساری دنیا
میں پھیل گئیں۔ مسلمانوں کا عروج ہوا اور دوسری تمام اقوام پست ہو گئیں۔ زمانہ گزرتا
رہا……
پھر
یوں ہوا کہ مسلمان مادی آسائش میں گرفتار ہو گیا۔ اور بالآخر آج وہی مسلمان جو فی
الواقع مواحد تھا توحید کا لفظی سہارا لینے پر مجبور ہے۔
چھٹی
صدی میں جو کچھ ہو رہا تھا وہ آج بھی ہو رہا ہے۔ نفرت و حقارت، تعصب اور نفرت، تفرقہ
بازی کا جو بازار گرم تھا جس کو رسول اللہ نے ختم کر دیا تھا آج پھر جوش عروج پر ہے۔
آج بھی سود کا لین دین عام ہے۔ اللہ سودی معیشت میں رہنے والے لوگوں کو اپنا دشمن
قرار دیتا ہے اور مسلمان نماز پڑھتا ہے حج کرتا ہے اپنے مال میں سے زکوٰۃ ادا کرتا
ہے۔ کوئی نہیں پوچھتا کہ اللہ کے دشمن کی نماز……اللہ کے دشمن کا حج……نماز کیسے ہو سکتی
ہے اور حج کیسے قبول ہو سکتا ہے۔
مذہبی
دانشور بڑی بڑی درسگاہیں، عالی شان مساجد تعمیر کرتے ہیں۔ لیکن کوئی نہیں جاننا چاہتا
کہ اللہ کے دشمن کی کمائی سے درسگاہوں اور مساجد سے نور کیسے طلوع ہو گا۔
امت
مسلمہ کا درد رکھنے والے لوگ حیران و پریشان ہیں کہ مذہبی دانشور مسلمانوں کو اللہ
کی دشمنی سے نجات پانے کا راستہ کیوں نہیں دکھلاتے۔ قرآن کے واضح احکامات کے باوجود
اسلام میں تفرقے کی بنیاد کو مسمار کرنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے۔ مادیت پرستی کے زہر
کا تریاق تلاش کیوں نہیں کرتے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ
ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور
مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی
اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان
کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو
اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں
تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ
باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب
سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور
لازوال عیش ہے۔