Topics
اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق قرآن متقی
لوگوں کو ہدایت بخشتا ہے جو لوگ متقی نہیں ہیں انہیں ہدایت نہیں ملتی۔ قرآن پاک سے
جہاں لوگ ہدایت پاتے ہیں وہاں بکثرت گمراہ بھی ہو جاتے ہیں۔ گمراہ وہی لوگ ہوتے ہیں
جن کے دل فسق و فجور سے آلودہ ہوں۔
گمراہ
کرتا ہے ساتھ اس کے بہتوں کو اور راہ دکھاتا ہے ساتھ اس کے بہتوں کو اور نہیں گمراہ
کرتا ساتھ اس کے مگر فاسقوں کو۔ (۲: ۲۶)
اور
جب آپ قرآن پڑھتے ہیں تو ہم آپ کے اور جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ان کے درمیان
ایک پردہ مستور حائل کر دیتے ہیں اور ہم ان کے دلوں پر حجاب ڈال دیتے ہیں جس سے وہ
اس (قرآن) کو سمجھ نہیں سکتے۔ اور ان کے کانوں میں ڈاٹ لگا دیتے ہیں۔ (۱۷:۴۶)
یقیناً
اللہ تعالیٰ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں فرماتا۔ (۶: ۱۴۲)
تحقیق
کہ شرک بڑا ظلم ہے۔ (۳۱: ۱۳)
شرک
کرنے والا بندہ قرآن سے ہدایت حاصل نہیں کر سکتا۔ شرک یہ بھی ہے کہ کسی کو اپنا روزی
رساں سمجھا جائے۔ اور جو شخص اللہ کی (قائم کردہ) حدود سے نکل جائے تحقیق کہ اس نے
اپنی جان پر ظلم کیا۔ (۶۵:۱)
وہ
حدود قوانین قدرت سے متعلق ہوں یا قوانین شریعت سے جو شخص اللہ کی قائم کردہ حدود سے
تجاوز کرے گا وہ بھی قرآن سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ اور ایسے شخص سے زیادہ ظالم کون
ہو گا جو ایسی شہات کا اخفا کرے جو اس کے پاس منجانب اللہ پہنچی ہو۔ (۲:۱۴)
اور
اس شخص سے زیادہ ظالم کون ہو گا جو اللہ پر جھوٹی تہمت لگائے یا یوں کہے کہ مجھ پر
وحی آتی ہے حالانکہ اس کے پاس کسی بات کی بھی وحی نہیں آتی۔ (۱۶:۹۳)
پس
اس سے زیادہ ظالم کون ہو گا جو اللہ پر جھوٹ باندھے تا کہ لوگوں کو بغیر علم کے گمراہ
کرے یقیناً اللہ تعالیٰ ظالموں کو ہدایت نہیں فرماتا۔ (۶:۱۴۴)
جو
لوگ اللہ سے غلط باتیں منسوب کرتے ہیں اور لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں خواہ وہ گمراہی
سیاسیات سے متعلق ہو یا اقتصادیات سے یا تمدنی امور سے عبادات میں ہو ایسے لوگ ظالموں
میں شمار کئے گئے ہیں۔ جن سے ہدایت چھین لی گئی ہے پس تحقیق تمہارے پاس پروردگار کی
طرف سے ایک کتاب واضح اور ہدایت اور رحمت آ چکی ہے تو اس سے زیادہ کون ظالم ہو گا
جو ہماری ان آیتوں کو جھٹلا دے اور ان سے گریز کرے۔ (۶: ۱۵۷)
اور
اس سے زیادہ ظالم کون ہو گا جس کو اس کے رب کی آیتوں سے نصیحت کی جائے۔ پھر وہ اس
سے روگردانی کرے اور اپنے ہاتھوں کے کرتوت کو بھی دل سے بھلا دے۔ تحقیق ہم نے ایسے
لوگوں کے دلوں پر پردہ ڈال دیا ہے کہ وہ سمجھ ہی نہ سکیں اور ان کے دلوں میں ڈاٹ لگا
دی (بدیں وجہ) اگر ان کو راہ راست کی جانب بلا دیں تب بھی وہ سیدھے راستے پر ہرگز نہ
آویں گے۔ (۱۸: ۵۷)
قرآن
میں ایسے لوگوں کے لئے کوئی روشنی نہیں۔ اگر آپ (اہل کتاب) کی خواہشوں کی پیروی کرنے
لگیں بعد اس کے کہ آپ کے پاس کچھ علم آ چکا ہے تو یقیناً ایسی صورت میں آپ کا بھی
شمار ظالموں میں ہو گا۔ (۲: ۱۴۵)
اپنی
انا کے خول میں بند خواہشات کی پیروی کرنے والے لوگ بھی قرآن سے استفادہ نہیں کر سکتے۔
کیا دیکھا آپ نے اس شخص کو جس نے اپنی خواہش کو اپنا معبود بنا لیا اور (بوجہ اس کے)
اللہ نے اس کو باوجود علم (رسمی) کے گمراہ کر دیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کی سماعت اور
اس کے دل پر مہر لگا دی اور اس کی بینائی پر پردہ ڈال دیا، بھلا ایسے شخص کو بعد اس
کے کہ اسے خدا نے گمراہ کر دیا ہو کون راہ راست پر لا سکتا ہے پس کیا نصیحت نہیں پکڑے۔
(۴۵: ۲۲)
اور
اگر ہم چاہتے تو اس کو ان آیات کی بدولت بلند مرتبہ کر دیتے لیکن وہ دنیا کی طرف مائل
ہو گیا اور اپنی خواہشات نفسانی کی پیروی کرنے لگا پس اس کی حالت کتے کی سی ہو گئی
کہ اگر تو اس پر حملہ کرے تب بھی ہانپے یا اس کو چھوڑ دے تب بھی ہانپے۔ یہ مثال ان
لوگوں کی ہے جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا پس آپ اس حال کو بیان کر دیجئے تا کہ
وہ لوگ کچھ غور و فکر کریں۔ (۷: ۱۷۶)
ان
کے دل ہیں جن سے وہ سمجھتے ہی نہیں اور ان کی آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے ہی نہیں
اور ان کے کان ہیں جن سے وہ سنتے ہی نہیں۔ یہ لوگ چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی
زیادہ گمراہ۔ یہ لوگ غافل ہیں۔ (۷: ۱۷۹)
مثال
دونوں کی ایسی ہے جیسے کہ ایک تو اندھا بھی ہو اور بہرا بھی ہو اور دوسرا دیکھنے والا
بھی اور سننے والا بھی کیا دونوں یکساں ہیں پس کیا تم نصیحت نہیں پکڑتے۔ (۱۱: ۲۴)
تحقیق
اللہ تعالیٰ مسرف کذاب کی رہنمائی نہیں فرماتا۔ (۴۰:۲۸)
جس
طرح ظاہر طور پر پاک صاف ہونا ضروری ہے اس طرح باطنی طور پر روح سے واقفیت ہو کر پاکیزہ
ہونا ضروری ہے جو لوگ باطنی طور پر پاکیزہ نہیں ہوتے قرآن انہیں ہدایت نہیں دیتا۔
یہ
کتاب۔ نہیں ہے شک اس میں یہ ہدایت ہے متقین کے لئے۔ (۱:۲)
ہدایت
و رحمت ہے مومنین کے لئے۔ (۱:۵۷)
اور
ہم نازل کرتے ہیں قرآن میں وہ چیز کہ اس میں شفا و رحمت ہے مومنین کیلئے اور زیادتی
خسارہ ہے ظالمین کیلئے۔ (۱۷:۸۲)
آپ
کہہ دیجئے کہ یہ قرآن ایمان والوں کیلئے تو ہدایت و شفا ہے اور جو ایمان نہیں لاتے
ان کے کانوں میں ڈاٹ ہے اور قرآن ان کے حق میں نابینائی ہے اور یہ لوگ (بوجہ نااہل
ہونے کے) ایسی جگہ سے پکارے جاتے ہیں جو ان کیلئے بڑی دور ہے۔ (۴: ۴۴)
اور
بلاشبہ۔ قرآن متقیوں کیلئے نصیحت ہے اور ہم جانتے ہیں کہ تم میں سے بعض اس کی تکذیب
کرتے ہیں اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ یہ قرآن کافروں کیلئے حسرت ہے۔ (۶۹:۴۸، ۴۹، ۵۰)
اللہ
کی کتاب قرآن کے انوار سے مستفیض ہونے کیلئے تزکیہ نفس۔ تصفیہ قلب اور روح کا مجلیٰ
ہونا ضروری ہے۔ تقویٰ اور ایمان کیلئے وہ صلاحیت اور قوی ہے جس کے ذریعہ اللہ قرآن
کے انوار سینوں میں بھر دیتا ہے۔ پس جبکہ ارادہ فرماتا ہے اللہ کہ ہدایت فرمائے کسی
کی تو شرح صدر عطا فرماتا ہے یعنی کشادہ فرما دیتا ہے اس کے سینہ کو اسلام کیلئے۔
(۶: ۱۲۵)
پس
جس شخص کا سینہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کیلئے کھول دیا وہ اپنے پروردگار کی طرف سے ایک
نور پر ہوتا ہے۔
(۳۹: ۲۲)
خواجہ شمس الدین عظیمی
زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ
ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور
مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی
اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان
کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو
اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں
تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ
باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب
سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور
لازوال عیش ہے۔