Topics

جنوری 1990؁ء۔روشن کتاب

’’اور ایک ایسی واضح اور روشن کتاب اللہ نے رسول اللہﷺ کے ذریعہ نازل کی ہے جس کی پیروی اگر یقین کے ساتھ کی جائے تو یہ کتاب ہمارے اوپر وہ راہیں کھول دیتی ہے جن راستوں پر چل کر ہم امن اور سلامتی حاصل کر لیتے ہیں۔

                ’’تم پر اللہ کا نور نازل ہوا ہے۔ یہ کتاب اندھیروں سے نکال کر دنیائے نور کی طرف لے جاتی ہے اور سیدھے راستے پر ڈال دیتی ہے۔‘‘  (قرآن)

                سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ہمارے پاس اللہ کی دی ہوئی ایسی کتاب موجود ہے جو اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لے جاتی ہیتو ہم زمین پر بدحال اور بے عزت کیوں ہیں؟ کونسی وجہ ہے جس کی بنیاد پر ہمارے بہترین شخص نے کمترین لباس پہن لیا ہے؟ ہمارے پاس اللہ کا پیغام اور کھلی نشانیاں اپنی اصلی صورت میں موجود ہیں اور ہم رسول اللہﷺ کے اسوہ مقدس سے بھی مانوس اور متعارف ہیں۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ایک زمانہ تھا کہ ہمارے اسلاف علمی میدان میں اتنے آگے تھے کہ دوسرے ان کی گردِ راہ کو بھی نہیں پہنچ سکتے تھے۔ دنیا کے اقتدار پر ہمارا قبضہ تھا حکمرانی ہمارے گھر کی لونڈی تھی۔ مشرق سے مغرب اور مغرب سے مشرق تک اسلام کا غلغلہ تھا۔ یورپین ممالک میں مسلمانوں نے کئی صدیاں حکومت کی۔ عروج ہمارے ماتھے کا نشان تھا اور زوال ہمارے پیروں تلے اپنے سانس گن رہا تھا۔ پھر کیا ہوا کہ ہماری عظمت خاک میں مل گئی۔ حکمران غلام بن گئے۔ علم کی جگہ جہالت نے ہمارے اوپر اپنے دبیز سائے ڈال کر اشرف المخلوقات کی صف سے نکال کر حیوانات کے گروہ میں شامل کر دیا۔ شاہراہ حیات پر ہم پیچھے رہ گئے۔ ہمارا اقتدار تو خاک میں مل گیا تھا۔ ہم دوسروں کے اس طرح محتاج ہو گئے کہ ہماری حیثیت ایک بھکاری کی بن گئی۔ انتہا یہ ہے کہ ہم علم میں بھی غیر مسلم کے سامنے کاسۂ گدائی لئے کھڑے ہیں۔ ہم کیوں بھول رہے ہیں کہ ہمارے پاس ایسی کتاب موجود ہے جس میں معاشرے کے مسائل کا حل تاریخ انسانی کے عبرت آموز واقعات اور قوموں کے عروج و زوال کے اسرار کی نشاندہی کی گئی ہے۔

                ہم جو ایک زمانے میں باعزت قوم تھے ہم جو عروج کی نشانی تھے۔ علم کی تفسیر تھے، پیچھے کیوں رہ گئے؟

                آج کی نشست میں اللہ کتاب ’’کتاب المبین‘‘ کے انوار کی روشنی میں اس کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

                چار سو سال پہلے جب یورپ اللہ کی زمین میں سے فولاد، تیل، کوئلہ اور معدنیات تلاش کر رہا تھا۔ ہم تفرقے کی بنیاد پر یہ ثابت کرنے میں لگے ہوئے تھے کہ نجات اس بات میں ہے کہ کوئی آدمی دیو بندی ہو۔ بریلوی ہو۔ اہل حدیث ہو۔ اور وہابی یا نجدی ہو۔ ہم لکیر کے فقیر بن کر زمین پر تیز رفتار چلنے کی بجائے چوپایوں کی طرح چلتے رہے۔ ہم نے جمود کا نام قناعت رکھ لیا۔ آگے بڑھنے کی بجائے پیچھے قدم اٹھانا اپنے لئے معراج سمجھا۔ شب و روز فروعی مسائل میں الجھتے رہے۔ یورپ خداداد صلاحیت کو کام میں لا کر قرآن میں بیان کردہ قانون کے مطابق اللہ کی زمین کے اوپر اور نیچے ترقی کے وسائل تلاش کرتا رہا۔ نتیجے میں انہوں نے ریل اور ہوائی جہاز بنائے۔ اپنی طاقت کا لوہا منوانے کیلئے اہل یورپ آتش گیر مادے کی طرف متوجہ ہوئے تو ایسے مہلک ہتھیار بن گئے کہ خوف و دہشت سے ہماری قومی حمیت بھی تختہ دار پر چڑھ گئی۔ ہم اقتدار سے گرتے گرتے ایک کٹیا میں بند ہو گئے اور وہ کینیڈا، چین، آسٹریلیا تک جا پہنچے۔ مسلمانوں کے زوال کی داستان اتنی غمناک ہے کہ آج کی نسل کا نوجوان جب اپنی تاریخ پڑھتا ہے تو اسے اپنے اسلاف کا کردار گھنائونا اور بدنما لگتا ہے۔ یورپ نے آپس کی ریشہ دوانیوں سے اور مسلمان قوم کی فرقہ بندی سے فائدہ اٹھا کر اسلامی حکومتوں کو پائمال کر دیا اور تمام اسلامی ممالک پر قبضہ کر لیا۔ مسلمان ہر جگہ پست ہوتا چلا گیا۔ شکست اس کا مقدر بن گئی اور یہ سب پہلے ہی واضح اور روشن کتاب میں بیان کر دیا گیا ہے۔ یہ وہی کتاب ہے جس کے بارے میں ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم اس کتاب پر یقین رکھتے ہیں اور ہمارا ایمان ہے کہ یہ کتاب اللہ کی طرف سے ہمیں عنایت کی گئی ہے۔ تمام آسمانی کتابیں اور انسانی تاریخ اس حقیقت کو بیان کرتی ہے کہ بقا صرف ان قوموں کو ہے جو خود باقی رہنا چاہتی ہیں۔ جمود، عیاشی، کاہلی،  بے یقینی اور اپنے اسلاف کے روشن ورثے سے انحراف قوموں کو ختم کر دیتی ہے۔ صفحہ ہستی سے ان کا نام مٹ جاتا ہے اور ایسی قومیں ذلیل و خوار ہو جاتی ہیں۔ زمین پر ان کا وجود بوجھ بن جاتا ہے۔ ہمارے بادشاہوں نے (جبکہ اسلام میں بادشاہت نہیں ہے) اپنے درباروں کو اس طرح سجایا اور آرام و آسائش کے ایسے سامان جمع کئے کہ وہ آرام و آسائش اور عیاشی میں ڈوب کر رعایا کی بہبود سے غافل ہو گئے۔ جب ایسا ہوا تو حکام کے سینے رحم سے خالی ہو گئے۔ معاشرہ درہم برہم ہو گیا۔ اخلاق انحطاط پذیر ہوتے ہوتے بداخلاقی اخلاقی بن گئی۔ لوگوں نے بہیمیت اور درندگی کو اپنا شعار بنا لیا۔ بادشاہوں نے غیر اسلامی قدروں کو اپنا کر مطربوں سرمایہ داروں اور خوشامدیوں کو تو نوازا لیکن ارباب علم و دانش سے اچھا سلوک نہیں کیا اور ایسی داستان عبارت ہوئی کہ بادشاہتیں بھی ختم ہو گئیں اور قوم بھی مفلوک الحال بن گئی۔

                ہم جب اسلام کی قدروں کا جائزہ لیتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ اسلام ضعیفوں، معذوروں، یتیموں کا کفیل بنا۔ سود جو دراصل انسانیت کے لئے ناسور ہے حرام قرار دیا گیا۔ اسلام نے مردہ انسانی اقدار کو پھر زندہ کیا۔ اسلام نے خالق سے قریب ہونے کا درس دیا، اسلام نے بتایا کہ مخلوق کا احترام اور مخلوق کی عظمت اس میں ہے کہ مخلوق کا رشتہ خالق سے قائم ہو اور اس طرح قائم ہو کہ مخلوق خالق کو جانتی ہو اور خالق مخلوق کو جانتا ہو۔

                امام غزالیؒ فرماتے ہیں کہ جب ایک عابد خدا کے ذکر کو اپنا معمول بنا لیتا ہے تو رفتہ رفتہ اسے بدی سے نفرت ہو جاتی ہے اور کوئی ترغیب اسے گناہ کی طرف مائل نہیں کر سکتی۔ یہ وہ منزل ہے جہاں اللہ اس کے دل کو اپنی مٹھی میں لے لیتا ہے وہ ماسوا سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔ اور مرنے کے بعد اس کی روح ایک زندہ پائندہ قوت بن جاتی ہے۔ اور جب بندوں کا اللہ سے رابطہ قائم ہو جاتا ہے تو اللہ ہر ہر قدم پر ان کی مدد کرتا ہے۔

                ’’اے ایمان والو! تم اللہ کا وہ احسان یاد کرو جب (جنگ احزاب میں چوبیس ہزار) حملہ آوروں نے تم پر ہلہ بول دیا تھا اس وقت ہم نے ان پر تیز رفتار آندھی چلائی۔ اور آسمان سے ایسے لشکر اتارے جنہیں تم نہیں دیکھ سکتے تھے۔ اس لئے کہ اللہ تمہارے اعمال کو دیکھ رہا تھا اور تم اس امداد کے مستحق تھے۔‘‘ (القرآن)

                تاریخ شاہد ہے کہ اللہ نے ظہور اسلام کے بعد پانچ سو برس تک ہمیں ہر میدان میں فتح سے نوازا۔ ہم نے جس سمت رخ کیا فتح نے ہمارے قدم چوم لئے۔ اس لئے کہ اللہ ہمارے ساتھ تھا۔ دوسری طرف قیصر و کسریٰ کو ان کا بے اندازہ سامان جنگ اور بے شمار فوج اس لئے تباہی سے نہ بچا سکی کہ وہ اللہ کے لطف و کرم سے محروم ہو چکے تھے۔ آج نظر آ رہا ہے کہ ہمارے اپنے اعمال کی وجہ سے اللہ کے لطف و کرم کے دروازے ہمارے اوپر بند ہو گئے ہیں۔ ہم اپنا محاسبہ کر کے یقین کے ساتھ دل کی گہرائیوں سے اللہ کے احکامات اور رسول اللہﷺ کی تعلیمات پر عمل کر کے نیکو کار زندگی کے پابند ہو جائیں تو اللہ کا وعدہ سچا ہے۔‘‘

                ’’جو لوگ اللہ کے لئے جدوجہد کرتے ہیں کوشش کرتے ہیں اللہ کی پھیلائی ہوئی نشانیوں میں تفکر کرتے ہیں اللہ کو اپنا جانتے ہیں اپنا مانتے ہیں اللہ کو اپنے قریب محسوس کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے اوپر اللہ تعالیٰ ہدایت کے راستے کھول دیتے ہیں۔‘‘

                اور جب ہم ان راستوں پر چل کر کھڑے ہونگے جن راستوں کو اللہ نے ہدایت کا راستہ کہا ہے تو وہی شوکت وہی عظمت ہمیں مل جائے گی جو ہمارے اسلاف کا پانچ سو برس تک ورثہ رہا ہے۔ اور اگر ہم خواب خرگوش ے نہ جاگے، نفرتوں میں بٹی ہوئی قوم صراط مستقیم پر گامزن نہ ہوئی، اللہ کی رسی کو متحد ہو کر مضبوطی سے نہ پکڑا تو ہم تاریک راستوں پر بھٹکتے پھریں گے۔ غلامی ہمارے اوپر مسلط ہو جائے گی۔ ہماری نسلیں کوڑے کا ڈھیر بن جائیں گی۔

اسلام کسی ایک شعبے کا نام نہیں ہے۔ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ اسلام نظام زندگی میں ایک مرکز ہے۔ ایک وحدت ہے، ایک یونٹ ہے۔ ایک روشن شاہراہ ہے۔ اسلام ایک ایسا دریا ہے جس میں سے ہدایت کی شفاف شیریں نہریں نکلتی ہیں۔ یہ نہریں زبان اور دل کے یقین کے ساتھ ’’ایمان‘‘ ہے۔

                صلوٰۃ (اللہ کے ساتھ تعلق قائم کرنا) ہے مٹی کی سڑاند سے بنے ہوئے اسفل جذبات کو کنٹرول کر کے اعلیٰ جذبات میں داخل ہونا ’’صوم‘‘ ہے۔ اللہ کی مخلوق کو آرام پہنچانا، ذی احتیاج لوگوں کی ضرورتیں پوری کرنا، یتیموں، مسکینوں پر دست شفقت رکھنا۔ بیوائوں کی خبر گیری کرنا۔ پریشان حال لوگوں کو پریشانیوں سے نکال کر آسائش و آرام مہیا کرنا، مخلوق کے لئے راحت و سکون کے وسائل فراہم کرنا ’’زکوٰۃ‘‘ ہے۔ اجتماعی طور پر پورے عالم اسلام کی سالانہ رپورٹ پر افہام تفہیم کے ساتھ غور و فکر کرنا عروج و زوال کے اسباب کو تلاش کرنا اللہ کی وحدانیت کو انفرادی حیثیت سے نہیں اجتماعی طور پر مشاہداتی طور پر تسلیم کرنا ہے۔ اپنے اسلاف کے شعار کی پیروی کرنا۔ اور اجتماعی مفادات کو پوری اسلامی برادری میں پھیلا دینا ’’حج‘‘ ہے۔ اللہ کے لئے مال، اولاد اور اپنی جان کا نذرانہ پیش کر دینا ’’جہاد‘‘ ہے۔

                اللہ تعالیٰ کا حکم ہے:

                ’’اسلام میں پورے پورے کے داخل ہو جائو۔‘‘

                چند ارکان کو اپنا کر باقی احکامات سے بے نیاز ہونا اسلام نہیں ہے۔

                منہ مشرق یا مغرب کی طرف کرنا نیکی نہیں ہے۔ اللہ آخرت ملائکہ آسمانی صحائف اور تمام انبیاء پر ایمان ہو۔ رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، حاجت مندوں، مسافروں، مصیبتوں اور پریشانیوں میں گرفتار لوگوں کی امداد کرنا نماز قائم کرنا، زکوٰۃ ادا کرنا، وعدوں کی پابندی کرنا، مصیبت، مرض اور جنگ میں ثابت قدم رہنا نیکی ہے۔ یہی لوگ سچے مومن اور متقی ہیں۔ (قرآن)

                اے اللہ! تیری ذات عظیم ہے۔ تیرا نام جلیل و اکبر اور رحیم و کریم ہے۔ ہم تجھ ہی سے اعانت طلب کرتے ہیں۔ اے پروردگار! ہمیں سیدھی راہ پر چلا۔ ہمارے اوپر اپنا انعام عام کر دے۔ اے خدا! اے ہمارے رب! ہمیں ان لوگوں سے جو سیدھی راہ سے منحرف ہو گئے ہیں۔ مغضوب اور بے راہ اقوام کی پیروی سے محفوظ و مامون فرما۔ ہمیں اور ہماری اولاد کو نماز قائم کرنے والی بنا۔ الٰہی رشتہ قائم کرنے کی ہمیں توفیق دے۔ روز محشر ہمارے والدین اور اپنی مخلوق پر نوازش فرما۔ اے اللہ! ہم نے اپنے اوپر بہت ظلم کیا ہے۔ آپ کے سامنے دست دعا دراز ہے۔ اے اللہ! تو نے وعدہ فرمایا ہے مجھ سے مانگو میں قبول ک روں گا۔ ہماری دعائیں اور التجائیں سن لے۔ قبول کر لے۔ ہمیں اپنا عرفان عطا کر دے۔ اپنے محبوب صلی اللہ علیہ و سلم کی زیارت سے مشرف کر دے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے وارث ابدال حق قلندر بابا اولیائؒ کے فیض سے ہم سب کو مستفیض فرما۔

Topics


نورنبوت نور الٰہی-V1

خواجہ شمس الدین عظیمی

زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور لازوال عیش ہے۔