Topics
قرآن پاک ایک ایسی کتاب ہے جس میں شک
و شبہ کی گنجائش نہیں ہے اور یہ کتاب ان لوگوں کو ہدایت بخشتی ہے جو متقی ہیں۔ اور
متقی وہ لوگ ہیں جو غیب پر یقین رکھتے ہیں اور یقین کی انتہا یہ ہے کہ آدمی کے
اندر کی نظر کھل جاتی ہے اور غیب اس کے لئے مشاہدہ بن جاتا ہے جب تک مشاہدہ عمل
میں نہ آئے یقین کی تعریف پوری نہیں ہوتی۔ قرآن پاک ایک ایسی یقینی دستاویز ہے
جس دستاویز میں ماشرتی قوانین کے ساتھ ساتھ ایسے فارمولے درج ہیں جن کے اوپر تسخیر
کائنات کا دارومدار ہے۔ ان فارمولوں میں اس بات کی پوری وضاحت موجود ہے کہ ہم علم
الکتاب حاصل کر کے زمان و مکان (Time & Space) کی گرفت کو توڑ سکتے ہیں۔ قرآن پاک کے علوم کو جاننے والا اور
سمجھنے والا کوئی بندہ بغیر وسائل کے خلا میں پرواز کرنے اور ایک جگہ سے دور دراز
دوسری جگہ کسی چیز کو منتقل کرنے پر قدرت رکھتا ہے۔ یہی بندہ اللہ تعالیٰ کا انعام
یافتہ ہوتا ہے۔ آسمانوں میں اور زمین میں موجود تمام اشیاء اس کے لئے مسخر ہوتی
ہیں۔
روئے
زمین پر انسان کو اگر ہدایت مل سکتی ہے تو صرف اللہ کی کتاب قرآن پاک سے مل سکتی
ہے۔
قرآن
کریم کو اس عزم، اس ولولہ اور اس ہمت کے ساتھ پڑھئے کہ اس کی نورانی کرنوں سے ہمیں
اپنی زندگی سنوارنی ہے۔ قرآن آئینے کی طرح آپ کے اندر ہر داغ اور ہر دھبہ
نمایاں کر کے پیش کرتا ہے۔ قرآن ایک ایسی انسائیکلوپیڈیا ہے جس میں ہر چھوٹی سے
چھوٹی اور بڑی سے بڑی بات وضاحت کے ساتھ بیان کر دی گئی ہے۔ اب یہ آپ کا کام ہے
کہ آپ قرآن پاک میں بیان کردہ نعمتوں سے کتنا فائدہ حاصل کرتے ہیں۔
اللہ
تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’کتاب
جو ہم نے آپ کی طرف بھیجی برکت والی ہے تا کہ وہ اس میں غور و فکر کریں اور عقل
والے اس سے نصیحت حاصل کریں۔‘‘
تخلیقی
قوانین (فارمولوں) کے یکتا ماہر، اللہ تعالیٰ کی مشیت ہم راز اور احسن الخالقین کے
امین، کائنات کے سرتاج، رحمت اللعالمین حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد ہے:
’’اپنی
آواز اور اپنے لہجے سے قرآن کو آراستہ کرو۔‘‘
نبی
صلی اللہ علیہ و سلم قرآن پاک کے ایک ایک حرف کو واضح کر کے اور ایک ایک آیت کو
الگ کر کے پڑھا کرتے تھے۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد گرامی ہے:
’’قرآن
پڑھنے والوں سے قیامت کے روز کہا جائے گا…جس ٹھہرائو اور خوش الحانی کے ساتھ تم
دنیا میں بنا سنوار کر قرآن پڑھا کرتے ت ھے، اسی طرح قرآن کی تلاوت کرو اور ہر
آیت کے صلے میں ایک درجہ بلند ہوتے جائو۔ تمہارا ٹھکانہ تمہاری تلاوت کی آخری
آیت کے قریب ہے۔‘‘
قرآن
پاک اس طرح نہ پڑھئے کہ گانے کا گمان ہو، نہ اتنی دھمی آواز میں پڑھئے کہ سمجھ
میں نہ آئے۔
اور
اپنی نماز میں نہ تو زیادہ زور سے پڑھئے اور نہ بالکل آہستہ آہستہ بلکہ دونوں کے
درمیان کا طریقہ اختیار کیجئے۔ (قرآن)
یاد
رکھئے! جو دل گندے اور نجس خیالات کی آماجگاہ ہے اور جس دل میں طہارت اور پاکیزگی
نہیں ہے وہ دل قرآن پاک کی عظمت و وقعت سے خالی رہتا ہے۔ دل کی پاکیزگی اور طہارت
کے لئے پہلا مرحلہ حلال روزی ہے۔
قرآن
پاک کی تلاوت تفکر اور تدبر کے ساتھ کیجئے۔ اس کے اندر بیان کردہ حقائق اور حکمتوں
کو سمجھئے۔ فر فر تلاوت کرنے کی بجائے سمجھ کر پڑھنے کی طرزیں اختیار کیجئے۔
حضرت
عبداللہؓ ابن عباسؓ فرمایا کرتے تھے کہ میں ’’القارعہ‘‘ اور ’’القدر‘‘ جیسی چھوٹی
سورتوں کو معانی اور مفہوم کے اعتبار سے سوچ سمجھ کر پڑھنا اس سے زیادہ بہتر
سمجھتا ہوں کہ ’’البقرہ‘‘ اور ’’آل عمران‘‘ جیسی بڑی بڑی سورتیں جلدی جلدی پڑھ
جائوں اور کچھ نہ سمجھوں۔
نبی
برحق، آقائے نامدار، باعث تخلیق کائنات صلی اللہ علیہ و سلم ایک مرتبہ ساری رات
ایک ہی آیت کی تلاوت فرماتے رہے…
’’اے
خدا! اگر تو ان کو عذاب دے تو تیرے بندے ہیں اور اگر تو ان کو بخش دے تو تُو
انتہائی زبردست اور نہایت حکمت والا ہے۔‘‘
خواجہ شمس الدین عظیمی
زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ
ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور
مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی
اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان
کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو
اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں
تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ
باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب
سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور
لازوال عیش ہے۔