Topics
’’نیکی یہ نہیں ہے کہ تم اپنا
منہ مشرق اور مغرب کی طرف کر لو لیکن نیکی یہ ہے کہ کوئی شخص ایمان لائے اللہ پر اور
قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور آسمانی کتابوں پر اور نبیوں پر اور مال دیتا ہو
اللہ کی محبت میں رشتہ داروں کو اور یتیموں کو اور مسکینوں کو اور مسافروں کو اور سوال
کرنے والوں کو اور گردن چڑھانے میں۔‘‘ (سورہ البقرہ)
’’اے
ایمان والو! ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھائو ہاں اگر آپس کی رضا مندی سے تجارت کا
لین دین ہو اور اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔ بے شک اللہ تم پر مہربان ہے۔‘‘ (سورہ
النسائ)
’’اللہ
تم کو حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں ان کے حوالے کر دیا کرو اور جب لوگوں
کے درمیان فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو۔ اللہ تمہیں بہت خوب نصیحت کرتا
ہے۔ بے شک اللہ سنتا اور دیکھتا ہے۔‘‘ (سورہ النسائ)
اللہ
رب العزت سارے جہانوں کا پرورش کرنے والا، سب کی ضروریات کا کفیل اور سب کا نگہبان
ہے۔ چنانچہ جب ہم انسانوں سے بھلائی کے ساتھ پیش آتے ہیں، ان کی مدد کرتے ہیں تو اللہ
تعالیٰ کی خوشنودی کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔ قرآن پاک نے ہم پر حقوق العباد یعنی بندوں
کے حقوق پورا کرنا لازم و ملزوم کر دیا ہے اور اس کی بہت تاکید کی ہے۔
حقوق
العباد کی ادائیگی رشتہ داروں سے شروع ہوتی ہے جن میں والدین سب سے پہلے مستحق ہیں۔
ماں باپ کی خدمت اور ان کی اطاعت اولین فریضہ ہے۔ اہل و عیال کے لئے حلال رزق کا حصول
اور بچوں کی اچھی تعلیم و تربیت بھی حقوق العباد میں سے ہے۔ اس کے بعد دوسرے رشتہ داروں
اور پڑوسی کا نمبر آتا ہے۔ آخر میں تمام انسان حقوق العباد کے دائرہ کار میں آتے
ہیں۔
نورِ نبوت
نبی
آخر الزماں سیدالانبیاء خیر البشر سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
’’مسلمان
دوسرے مسلمان کا بھائی ہے۔ نہ تو اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اس کو بے یارومددگار چھوڑتا
ہے۔ اور جو اپنے بھائی کی حاجت پوری کرے گا اللہ اس کی حاجت پوری کرے گا۔ جو شخص کسی
بھائی کی کسی پریشانی کو دور کرے گا تو اللہ اس کی پریشانی دور کرے گا۔ جو شخص کسی
بھائی کی پردہ پوشی کرے گا تو اللہ اس کی پردہ پوشی فرمائے گا۔‘‘
’’ایک
مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حقوق ہیں۔ جب اس سے ملو تو اس کو سلام کرو، جب وہ دعوت
دے تو اس کی دعوت قبول کرو، جب وہ تم سے خیر خواہی چاہے تو اس سے خیر خواہی کرو، جب
اسے چھینک آئے اور اللہ کی حمد بیان کرے تو اس کا جواب دو، جب وہ بیمار ہو تو اس کی
عیادت کرو اور جب اس کا انتقال ہو جائے تو اس کے جنازے کے ساتھ جائو۔‘‘
دین
کا بنیادی جذبہ خیر خواہی ہے چنانچہ اگر ہم کسی کے لئے اچھائی نہیں کر سکتے تو اس کے
لئے برائی کے مرتکب بھی نہ ہوں۔ اگر ہم اس پوزیشن میں نہ ہوں کہ مالی لحاظ سے کسی کی
مدد کر سکیں تو خدمت کے اور بھی ذرائع ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں مختلف صلاحیتوں سے
نوازا ہے۔ ہم ان کو لوگوں کے فائدے کے لئے استعمال کر سکتے ہیں۔
خیر خواہی کے لئے محض مالی حالت کا
اچھا ہونا ضروری نہیں ہے۔ لوگوں سے خوش اخلاقی سے پیش آنا، سلام میں پہل کرنا، کسی
کی غیبت نہ کرنا اور نہ سننا، اللہ کی مخلوق سے حسنِ ظن رکھنا، لوگوں کے چھوٹے موٹے
کام کر دینا، کسی ضعیف یا بیمار کو سڑک پار کرا دینا، بیمار کی مزاج پرسی کرنا، سڑک
پر پڑتے ہوئے پتھر یا کانٹوں کو راہ سے ہٹا دینا حقوق العباد کے زمرے میں آتے ہیں
خواجہ شمس الدین عظیمی
زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ
ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور
مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی
اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان
کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو
اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں
تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ
باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب
سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور
لازوال عیش ہے۔