Topics

نومبر1999؁ء۔خدا سے قربت

اللہ تعالیٰ کے ساتھ ربط قائم ہو جانے سے انسان کا دل مطمئن ہو جاتا ہے اور اس کے اوپر سکون کی بارش برستی رہتی ہے۔ روحانیت میں قیام صلوٰۃ کا ترجمہ ربط قائم کرنا ہے۔ یعنی اپنے اللہ سے ہر حال اور ہر حرکت میں تعلق اور ربط قائم رکھا جائے۔ نماز کے ذریعے خدا سے قربت حاصل کیجئے۔ بندہ اپنے رب سے سب سے زیادہ قریب اس وقت ہوتا ہے جب وہ اس کے حضور سجدہ کرتا ہے۔

                دشمنوں کی فتنہ انگیزی اور ظلم و ستم سے گھبرا کر بے ہمت، بزدل اور پریشان ہو کر بے رحموں کے سامنے سرنگوں ہو کر اپنے قومی وقار کو داغدار کرنا دراصل احساس کمتری اور خود کو ذلیل کرنے کی علامت ہے۔ اس کمزوری کا کھوج لگایئے کہ آپ کے دشمن میں آپ پر ستم ڈھانے اور آپ کے ملی تشخص کو پائمال کرنے کی جرأت کیوں ہوئی۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کی دو وجوہات بتائی ہیں۔

                ۱۔ مسلمان دنیا سے محبت کرنے لگیں گے۔

                ۲۔ موت ان کے اوپر خوف بن کر چھائے گی۔

                کیا اتباع سنت یہی ہے کہ ہم کرسی اور میز پر کھانا کھانے سے پرہیز کریں کیونکہ کبھی آپﷺ نے ایسا نہیں کیا۔ لیکن کبھی بھولے سے اس بات کا خیال بھی نہ آئے کہ آپ کی غذا کیا تھی۔ اور جو کچھ تھی وہ کس وجہ سے تھی۔ چمچے کے استعمال سے پرہیز مگر کھانا لذیذ سے لذیذ تر کھانا، کھانا حلق تک ٹھونس کر کھانا اور اپنے بھائیوں اور فاقہ زدوں سے ایسی لاپرواہی اور بے اعتنائی برتنا کہ جیسے ان کا زمین پر وجود ہی نہیں ہے۔ پائنچے ٹخنوں سے ذرا نیچے ہو جائیں تو گناہ کبیرہ لیکن اگر لباس کبر و نخوت، ریا اور نمائش کا ذریعہ بن جائے تو کوئی اعتراض نہیں۔ یہ کونسا اسلام ہے کہ ہم نمازیں قائم کریں مگر برائیوں سے باز نہ آئیں۔ روزے رکھیں مگر صبر کے بجائے حرص و ہوس، غصہ اور بدمزاجی کا مظاہرہ کریں۔ جبکہ رسول اللہﷺ کی تعلیم ہمیں بتاتی ہے کہ کسی بندے کی ایک بار غیبت کرنے سے روزہ، نماز اور وضو سب کچھ فاسد ہو جاتا ہے۔

                ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ لوگوں نے آپﷺ سے کہا کہ مشرکین کے لئے بددعا کیجئے۔ آپﷺ نے فرمایا:

                ’’میں بُرا چاہنے کے لئے نہیں آیا۔ مجھے اللہ تعالیٰ نے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔‘‘

                آپﷺ کا اخلاق حسنہ یہ تھا کہ مدینہ میں لوگ اکثر صبح ہی صبح پانی لے کر آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہو جاتے تھے تا کہ آپﷺ اس میں برکت کے لئے ہاتھ ڈال دیں۔ کتنی ہی زیادہ سردی کیوں نہ ہو، آپﷺ لوگوں کو مایوس نہیں فرماتے تھے اور پانی میں ہاتھ ڈال دیتے تھے۔ اگر کسی کنیز کو بھی کچھ ضرورت ہوتی تو آپﷺ کا ہاتھ پکڑ کر جہاں چاہتی لے جاتی۔ اور آپﷺ کبھی جانے میں تامل نہیں فرماتے تھے۔

                میرے دوستو! اللہ بڑا رحیم ہے، بڑا کریم ہے، معاف کرنے والا ہے۔ مگر دانستہ غلطیاں ناقابل معافی جرم ہیں۔ اتباع سنت کے بڑے بڑے دعوے کرنے والے لوگو! محض دعوئوں سے کچھ نہیں بنتا۔ اخلاق نبویﷺ اختیار کرنے میں ظاہری پابندی کو شد و مد سے بیان کرنے والو اگر صداقت اور خلوص نہ ہو تو یہ سب ریا اور دکھاوا ہے۔

                یاد رکھو! حضور پاکﷺ کی مجموعی زندگی میں سے چند اعمال کو اختیار کر کے اتباع سنت کا دعویٰ کرنے والوں کو اللہ کبھی معاف نہیں کرے گا۔

                حقوق العباد کی ادائیگی رشتہ داروں سے شروع ہوتی ہے جن میں والدین سب سے پہلے مستحق ہیں۔ ماں باپ کی خدمت اور ان کی اطاعت اولین فریضہ ہے۔ اہل و عیال کے حلال رزق کا حصول اور بچوں کی اچھی تعلیم و تربیت بھی حقوق العباد میں سے ہے۔ اس کے بعد رشتہ داروں اور پڑوسیوں کا نمبر آتا ہے۔ آخر میں تمام انسان حقوق العباد کے دائرہ کار میں آتے ہیں۔

                حقوق العباد میں مالی حق بھی ہے اور اخلاقی حق بھی۔ قرآن پاک نے جابجا اس کی حدود بیان کی ہیں اور اس کو ایمان کا جزو قرار دیا ہے۔

                ارشاد باری تعالیٰ ہے:

                ’’نیکی یہ نہیں ہے کہ تم اپنا منہ مشرق اور مغرب کی طرف کر لو لیکن نیکی یہ ہے کہ کوئی شخص ایمان لائے اللہ پر اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور آسمانی کتابوں پر اور نبیوں پر اور مال دیتا ہو اللہ کی محبت میں رشتہ داروں اور یتیموں کو اور مسکینوں کو اور مسافروں کو اور سوال کرنے والوں کو اور گردن چھڑانے میں۔‘‘  (البقرہ)

                اگر ہم اس اپوزیشن میں نہ ہوں کہ مالی لحاظ سے کسی کی مدد کر سکیں تو خدمت کے اور بھی ذرائع ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں مختلف صلاحیتوں سے نوازا ہے جن کو ہم لوگوں کے فائدے کے لئے استعمال کر سکتے ہیں۔

                دین کا بنیادی جذبہ خیر خواہی ہے چنانچہ اگر ہم کسی کے لئے اچھائی نہیں کر سکتے تو اس کے لئے برائی کے مرتکب بھی نہ ہوں۔ خیر خواہی کے لئے محض مالی حالت کا اچھا ہونا ضروری نہیں ہے۔ لوگوں سے خوش اخلاقی سے پیش آنا، سلام میں پہل کرنا، کسی کی غیبت نہ کرنا اور نہ سننا، اللہ کی مخلوق سے حسن ظن رکھنا، لوگوں کے چھوٹے موٹے کام کر دینا، کسی ضعیف یا بیمار کو سڑک پار کرا دینا، بیمار کی مزاج پرسی کرنا، سڑک پر پڑے ہوئے پتھر یا کانٹوں کو راہ سے ہٹا دینا حقوق العباد کے زمرے میں آتے ہیں۔

Topics


نورنبوت نور الٰہی-V1

خواجہ شمس الدین عظیمی

زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور لازوال عیش ہے۔