Topics
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ: ’’ان لوگوں پر جب کوئی مصیبت
واقع ہوتی ہے تو کہتے ہیں ہم خدا ہی کا مال ہیں اور اُسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں‘‘۔ (سورۂ البقرہ۔ آیت 154)
جب تک آدمی کے یقین میں یہ بات رہتی
ہے کہ چیزوں کا موجود ہونا یا چیزوں کا عدم میں چلے جانا اللہ کی طرف سے ہے اس وقت
تک ذہن کی مرکزیت قائم رہتی ہے اور جب یہ یقین غیر مستحکم ہو کے بکھر جاتا ہے تو آدمی
ایسے عقیدوں اور وسوسوں میں گرفتار ہو جاتا ہے جس کا نتیجہ ذہنی انتشار، پریشانی، غم
اور خوف کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔
مومن مصائب و آلام کو صبر و سکون کے
ساتھ برداشت کرتا ہے اور بڑے سے بڑے حادثہ پر بھی صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتا
اور صبر و استقامت کا پیکر بن کر چٹان کی طرح اسی جگہ قائم رہتا ہے اور جو کچھ پیش
آ رہا ہے اس کو اللہ کی مشیّت سمجھ کر اس میں سے خیر کا پہلو نکال لیتا ہے۔
نورِ نبوت
حضور نبی کریم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ
علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا:
’’تم مسلمانوں کو باہم رحم دلی، اُلفت
و محبت اور باہم تکلیف کے احساس میں ایسا پائو گے جیسے ایک جسم، کہ اگر ایک عضو بیمار
پڑ جائے تو سارا جسم بخار اور بے خوابی میں اس کا شریک رہتا ہے‘‘۔
محبت و اُلفت، باہمی تعاون و یگانگت
اور خلوص مسلم معاشرے کی مثالی خصوصیات ہیں۔ مومنین کی ایک دوسرے سے محبت محض اللہ
کے لئے ہوتی ہے، کیونکہ ہر مومن اللہ کی جماعت کا رُکن ہے۔ اللہ کی جماعت کے ارکان
آپس میں شفیق اور ایک دوسرے کا دُکھ سُکھ بانٹنے والے ہوتے ہیں۔ ان کی مجموعی مثال
ایک جسم کی طرح ہوتی ہے کہ اگر جسم کے کسی ایک حصے کو تکلیف پہنچتی ہے تو پورا جسم
یہ تکلیف محسوس کرتا ہے۔ اپنے مسلمان بھائیوں سے اس طرح دلی تعلق پیدا کیجئے کہ گویا
وہ اور آپ ایک لڑی میں پروئے ہوئے دانے ہیں، تکلیف و آرام ہر معاملے میں ان کے رفیق
اور مددگار بنے رہئے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ
ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور
مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی
اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان
کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو
اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں
تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ
باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب
سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور
لازوال عیش ہے۔