Topics

نومبر 2003؁-سچی خوشی

مادّی اعتبار سے ہمیں یہ بھی علم نہیں ہے کہ سچی خوشی کیا ہوتی ہے اور کس طرح حاصل کی جاتی ہے۔ حقیقی مسرت سے واقف ہونے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنی اصل کو تلاش کریں۔ یہ معلوم کریں کہ پیدائش سے پہلے ہم کہاں تھے اور مرنے کے بعد کہاں چلے جاتے ہیں۔ حقیقی مسرت اور دائمی خوشی سے ہم آغوش ہونے کے لئے انسان کو سب سے پہلے یہ جاننا چاہئے کہ زندگی صرف جسمانی حرکات و سکنات کا نام ہے بلکہ اِ ن حرکات و سکنات کا انحصار اس حقیقت پر ہے جس حقیقت نے خوداپنے لئے گوشت پوست کے جسم کو لباس بنا لیا ہے۔ جب بندہ اس ہمہ گیر حقیقت سے آشنا ہو جاتا ہے تو وہ مصیبتوں، پریشانیوں اور عذاب ناک زندگی سے رستگاری حاصل کر لیتا ہے اور اُس حقیقی مسرت اور شادمانی سے واقف ہو جاتا ہے جو بندوں کا حق اور ورثہ ہے……یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ سکون یا خوشی کوئی خارجی شئے نہیں ہے۔ یہ ایک اندرونی کیفیت ہے۔ اس اندرونی کیفیت سے جب ہم آشنا ہو جاتے ہیں تو ہمارے اوپر سکون و اطمینان کی بارش ہونے لگتی ہے۔

              ارشاد باری تعالیٰ ہے:

              ’’اللہ کے دوستوں کو نہ خوف ہوتا ہے اور نہ غم‘‘۔  (القرآن)

 

نورِ نبوت

              خالق کائنات نے اس دنیا کو محبت، مسرت و شادمانی اور ایثار کا گہوارہ بنایا ہے……خوبصورت خوبصورت رنگ بہ رنگ پرندے، فطرت کے شاہد مناظر، پانی کا اُتار چڑھائو، پہاڑوں کی بلندی، آسمان کی رفعت، پھولوں کا حسن، درختوں کی قطاریں، تاروں بھری رات، روشن روشن دن، ماں کی آنکھوں میں محبت کی چمک، بچے کا مچلنا اور کلکاری بھرنا، بہن کی پاکیزگی، بھائی کا اخلاص، بیٹی کا تقدس، باپ کی شفقت یہ سب بلاشبہ نوع انسانی کے لئے خوشی اور شادمانی کا سامان ہیں۔ ایک ماں کی طرح زمین بھی یہی چاہتی ہے کہ اُس کی اولاد پُرمسرت زندگی گزارے، زمین کو دوزخ نہ بنا ڈالے، اُس کے اوپر پھولوں کے بجائے انگاروں کی کاشت نہ کی جائے۔ خوشی انسان کے لئے طبی تقاضا اور فطرت ضرورت ہے۔ اسلام یہ نہیں چاہتا کہ مسلمان مصنوعی وقار، غیر فطری سنجیدگی، مُردہ دلی اور افسردگی سے قوم کے کردار کی کشش کو ختم کر دیں، اسلام چاہتا ہے کہ مسلمان بلند حوصلوں نت نئے ولولوں اور نئی نئی اُمنگوں کے ساتھ تازہ دم رہ کر اپنا وقار بلند رکھیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد پاک ہے:

              ’’مومن ہمیشہ ہشاش بشاش رہتا ہے‘‘۔

Topics


نورنبوت نور الٰہی-V1

خواجہ شمس الدین عظیمی

زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور لازوال عیش ہے۔