Topics
انسان جب بچپن سے نکل کر شعور میں
داخل ہوتا ہے تو سب سے پہلے یہ تسلیم کرتا ہے کہ میں پیدا ہوا ہوں اور میرے پیدا
کرنے والے اگر ماں باپ ہیں تو ماں باپ کی پیدائش بھی میری طرح ہوئی ہے اور یہ سلسلہ
دراز ہو کر جب آدم اور حوا تک پہنچتا ہے تو جبر و اکراہ کے ساتھ یا طاعت و نیاز
مندی کے ساتھ اسے یہ بھی اقرار کرنا پڑتا ہے کہ پیدا کرنے والی ایک ماوراء
الماوراء ہستی ہے۔ یہ ہستی صرف ایک نام سے نہیں پہچانی جاتی بلکہ محتاط اندازے کے
مطابق اس ہستی کے ساڑھے گیارہ ہزار نام ہیں۔ کوئی اسے خدا کہتا ہے۔ کسی نے اس ہستی
کا تعارف گاڈ (God)
کے نام سے کرایا ہے۔ اور کسی نے بھگوان، یزدان، ایک، ایلیاہ اور اللہ کے نام سے
جانا ہے۔ شعور کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھتے ہی یہ اقرار امر مجبوری ہے کہ جملہ
کمالات اور ساری خوبیاں اللہ ہی کے لئے ہیں۔
جاوہ
و جلال، عظمت و جبروت، قوت و طاقت، علم و ہنر، حسن و جمال، سخاوت و حلم، رحم و
شفقت اسی ایک ذات اللہ کی صفات کا عکس ہے۔ کائنات میں جہاں جو بھی ہے چاند، سورج،
ستارے، کہکشانی نظام، آسمانی رفعت، زمین کی وسعت، زمین پر پہاڑوں کا نصب ہونا، گردش
لیل و نہار الگ الگ عالمین، عالمین میں ٹھوس، ٹرانسپیرنٹ سنہری پیلی، سیاہ، گندمی
اور سفید مخلوق کی ہر تصویر اسی ایک اللہ کی بنائی ہوئی تصویر ہے۔ کائنات کے ذرے
ذرے کو اس کا نظام الوہیت احاطہ کئے ہوئے ہے۔ اللہ نے مخلوق کو نہ صرف وجود عطا
کیا ہے بلکہ اس کی تعمیر و بقاء اور اس کی نگہداشت کے طریقے بھی ودیعت کئے ہیں۔
مخلوق کو کائناتی، نوعی، انفرادی شعور کے ساتھ ضروریات پوری کرنے کا ادراک بھی
بخشا ہے۔ ادراک کے ساتھ ساتھ ضروریات زندگی پوری کرنے کے لئے وسائل بھی مہیا کئے
ہیں۔
دن
میں اجالا کیا تو وہ کسی ایک کے لئے مخصوص نہیں کیا جس طرح ایک سو دس منزلہ عمارت
کے مکین اس اجالے سے فیضیاب ہوتے ہیں اسی طرح بانس کی سے بنی ہوئی جھونپڑی کے باسی
بھی اس اجالے سے فیضیاب ہوتے ہیں۔
چیونٹی
کی مقدار کے مطابق غذائی سامان اور اس غذائی سامان کی فراہمی کا جہاں انتظام ہے
وہاں ہاتھی، وہیل مچھلی اور ڈائنو سار کی خوراک میں بھی کمی نہیں ہے۔ ہوا، بارش،
روشنی، دھوپ، چشمے، آکسیجن سب نعمتیں اللہ کے دسترخوان پر سجی ہوئی ہیں۔ کوئی
قیمت نہیں ہے، کوئی پابندی نہیں ہے، کوئی کمی نہیں ہے۔ جہاں جو بھی ہے اللہ کے
دسترخوان سے ان نعمتوں کو بے دریغ استعمال کر رہا ہے۔
بکری
کا بچہ پیدا ہوتے ہی ٹہمک ٹہمک کر ماں کے تھنوں پر منہ مارتا ہے۔ مچھلی کا بچہ
پیدا ہوتے ہی تیرنا شروع کر دیتا ہے۔ چیونٹی کے دماغ میں یہ صلاحیت بھر دی گئی ہے
کہ وہ ثابت دال کے دو ٹکڑے کر کے بل میں ذخیرہ کرتی ہے تا کہ زمین کی نمی سے دال
اُگ نہ آئے۔ دھنیا کے چار ٹکڑے کر کے رکھتی ہے اس لئے کہ یہ بات وہ عقلی طور پر
جانتی ہے کہ دھنیا کا آدھا حصہ زمین سے اُگ آتا ہے۔ شیر کو یہ وصف بخشا ہے کہ وہ
کسی کا مارا ہوا شکار نہیں کھاتا۔
کائنات
کا نظام ربوبیت اتنا فعال، متحرک اور زندہ ہے ہر چیز اپنے وقت، اپنے حساب سے ظاہر
ہو رہی ہے اور ان دیکھے پردے میں چھپ رہی ہے۔
پہلے
اس عظیم اور برتر از خلائق اللہ نے کائنات کو تین رخوں میں تین زون میں تقسیم کیا۔
ایک خود اللہ، ایک ملائکہ، ایک نوع اجنہ۔ جب عالمین کی ہر زمین پر روشنیوں کا
انعکاس مدھم ہوا تو اللہ تعالیٰ نے ایک تیسری نوع کو پیدا کیا۔ اس نوع کا نام آدم
رکھا گیا۔
آدم
کو نور کے غلاف میں بند کر کے اس کے اوپر یہ راز منکشف کیا کہ:
اے
آدم! تیری نوع میں میرا ایک محبوبﷺ ہے۔ میں نے اسی محبوبﷺ کے لئے یہ ساری کائنات
تخلیق کی ہے۔
صدیاں
گزرتی رہیں نوع آدم کا شعور ارتقائی منازل طے کرتا رہا۔ اور پھر ایک وقت ایسا
آیا کہ آدم کی اولاد زمین پر پھیل گئی۔ صحرا گلزار میں اور بیابان بستیوں میں
تبدیل ہوتے رہے۔ یہ سب اللہ کے محبوبﷺ کے استقبال کی تیاری ہو رہی تھی۔
یکایکمکہ
کی پیاسی تپتی اور گرم طوفانوں کے تھپیڑوں سے جھلستی ہوئی زمین پر چشمہ ابل آیا۔
خشک وادی سرسبز ہو گئی اور اس کے ایک چشمے سے فیض کے ایک لاکھ چوبیس ہزار چشمے
اُبل پڑے۔ جب چشمے، ندیاں، نہریں، دریا اور سمندر روشنی کے ہالے سے نکل کر نور میں
داخل ہوئے تو آسمانوں میں شور برپا ہو گیا۔ آسمان والو! زمین کی رفعت تم سے بڑھ
گئی ہے۔
سماوات
کو بے قراری نے جب اداس کر دیا اور اہل آسمان اپنے بے بضاعتی پر گداز دل کے ساتھ
اللہ کے حضور سجدہ ریز ہو گئے تو الرحمٰن الرحیم اللہ کو رحم آیا۔ اور فرمایا:
اللہ
نور السموات والارض
’’اے
آسمان والو! اے گروہ جنات! اے گروہ سماوی! یہ نور ہماری ذات کا عکس ہے۔‘‘
یاد
رکھو۔ میں سب عالمین کے لئے رب ہوں اور میرے محبوبﷺ عالمین کے لئے رحمت ہیں۔
خدا،
بھگوان، گاڈ، یزدان اور اللہ نے خود کو تجلی کے پردے میں چھپا کر تجلی کے عکس
’’نور‘‘ کو ظاہر کر دیا۔ یہی نور روشنی بن کر پوری کائنات پر چھایا ہوا ہے۔ اس لئے
کہ خود اللہ یہ چاہتا ہے کہ وہ اپنے محبوبﷺ کے حسن و جمال سے پہچانا جائے۔
سراپا
نور، سراپا رحمت، سراپا روشنی، اللہ کے محبوب صلی اللہ علیہ و سلم جب کائنات اور
اللہ کے درمیان پہچان کا ذریعہ (Medium) بنے تو اس رب العالمین نے رحمت اللعالمین بندے سے فرمایا:
اول
خلق اللہ نوری
کائنات
سے پہلے اللہ تھا اور کائنات کی ابتدا میرا نور ہے۔ نور جب کائنات بنی تو روشنی
وجود میں آ گئی۔ روشنی پھیلی تو کائنات منور ہو گئی۔ سورج، چاند، ستارے جگمگائے،
آسمانوں میں قبدیلیں روشن ہوئیں۔ جنت بنی، جنت کے باغات بنے، حور و غلمان وجود
میں آئے۔ زمین پر روشنی منعکس ہوئی، رنگ رنگ پھول اُگے، زمین سے فواروں کی طرح
چشمے اُبلے، قطار در قطار درختوں نے کھڑے ہو کر درود و سلام پڑھا۔ قمریوں نے مدح
سرائی کی، پرندے چہچہائے، کوئل کی کوک نے فضا میں ارتعاش پیدا کر دیا۔ غرضیکہ جو
جہاں تھا اس نے اس روشنی کو صدق و یقین اور دل کی گہرائیوں کے ساتھ ’’خوش آمدید‘‘
کہا۔
یہ
کون نہیں جانتا کہ صرف گوشت پوست اور ہڈیوں کے ڈھانچے کا نام انسان نہیں ہے۔ انسان
روح سے مرکب ہے۔ روح روشنی ہے۔ روشنی نور ہے اور نور تجلی کا عکس ہے۔
اے
میرے دوستو! جس طرح جسمانی ضروریات پوری کرنے کے لئے ضروریات کے علم اور ان کی
تکمیل کے طریقوں سے واقف ہونا ضروری ہے بالکل اسی طرح روح کی ضروریات اور اس کی
تکمیل کے طریقوں سے بھی واقف ہونا ضروری ہے۔ جسمانی تعمیر کے لئے دماغ ہماری
راہنمائی کرتی ہے اور روحانی تعمیر کے لئے دل ہماری رہنمائی کرتا ہے۔ دل کی تربیت
کے لئے اس زمین پر اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر بھیجے اور دل کو نور سے معمور کرنے
کے لئے اللہ رب العالمین نے ہمارے لئے اپنے محبوبﷺ کو عالمین کے لئے رحمت بنا کر
بھیجا ہے۔
ربیع
الاول۔ یہ مبارک مہینہ اس بات کی دعوت دیتا ہے کہ ہم اپنے دلوں سے کدورتوں،
نفرتوں، مصیبتوں، افتراق کو ختم کردیں اور نور اول صلی اللہ علیہ و سلم کے انوار
سے اپنے دلوں کو منور کر لیں۔
تحقیق
اللہ اور اس کے فرشتے نبیٔ برحق پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی ہمارے
دوست، ہمارے محبوب محمد الرسول اللہﷺ کے اوپر سلام پڑھو۔ صلی اللہ تعالیٰ علیٰ
حبیبہٖ محمد و سلم (درود خضری)
اللہ
چاہتا ہے، اللہ اپنے بندوں سے تقاضہ کرتا ہے۔ اللہ نے اپنی مخلوق پر فرض کر دیا ہے
کہ ’’اللہ کے محبوبﷺ کی اطاعت کی جائے‘‘۔
اللہ
کے محبوب علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نقش قدم پر چلنا حضور پاکﷺ کی تعلیمات پر عمل
کرنا اللہ کی اطاعت ہے۔ اللہ کے راستہ پر چلنا ہے اور اللہ کی تعلیمات پر عمل کرنا
ہے۔
’’جس
نے میرے رسولﷺ کی اطاعت کی پس اس نے میری اطاعت کی۔‘‘ (قرآن)
خواجہ شمس الدین عظیمی
زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ
ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور
مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی
اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان
کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو
اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں
تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ
باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب
سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور
لازوال عیش ہے۔