Topics
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’اے
مومنو! میں تمہیں ایسی تجارت کیوں نہ بتائوں؟ جو تمہیں درد ناک عذاب سے نجات دلائے۔
تم خدا اور اس کے رسولﷺ پر ایمان لائو اور خدا کی راہ میں اپنے مال اور اپنی جانوں
سے جہاد کرو۔ یہ تمہارے حق میں بہت بہتر ہے اگر تم علم سے کام لو۔‘‘
’’ناپ
تول میں کمی کرنے والوں کے لئے ہلاکت ہے۔ جو لوگوں سے ناپ کر لیں تو پورا پورا لیں
اور جب ان کو ناپ تول کر دیں تو کم کر کے دیں۔ (اشیاء میں ملاوٹ بھی ناپ تول میں کمی
کے زمرہ میں آتا ہے) کیا یہ لوگ نہیں جانتے کہ یہ زندہ کر کے اٹھائے بھی جائیں گے۔
ایک بڑے ہی سخت دن میں، جس دن تمام انسان رب العالمین کے حضور کھڑے ہوں گے۔‘‘
زیادہ
منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں،
غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم
ہو جاتے ہیں۔
ان
کی زندگی اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے وہ ظاہر طور پر خوش نظر آئیں، ان کا
دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف کے سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے۔ وہ کسی کو اپنا
ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں تو وہ غم
میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ باغ ہو جاتا
ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب سے نجات دلانے
والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کی کامرانی اور لازوال عیش ہے۔
نورِ نبوت
رسول
اللہﷺ نے صحابہ کرام سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
’’میری
امت پر وہ وقت آنے والا ہے جب دوسری قومیں اس پر اس طرح ٹوٹ پڑیں گی جس طرح کھانے
والے دسترخوان پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔‘‘
کسی
نے پوچھا۔ ’’یا رسول اللہﷺ! کیا اس زمانے میں ہماری تعداد اتنی کم ہو جائے گی کہ ہمیں
نگل لینے کے لئے قومیں متحد ہو کر ہم پر ٹوٹ
پڑیں گی؟‘‘
ارشاد
فرمایا:
’’نہیں،
اس وقت تمہاری تعداد کم نہ ہو گی بلکہ تم بہت بڑی تعداد میں ہو گے البتہ تم سیلاب میں
بہنے والے تنکوں کی طرح بے وزن ہو گے۔ تمہارے دشمنوں کے دل سے تمہارا رعب نکل جائے
گا اور تمہارے دلوں میں پست ہمتی گھر کر لے گی۔‘‘
اس
پر ایک آدمی نے عرض کیا۔ ’’یا رسول اللہﷺ! یہ پست ہمتی کس وجہ سے آ جائے گی؟‘‘
رسول
اللہﷺ نے فرمایا:
’’اس
وجہ سے کہ تم دنیا سے محبت اور موت سے نفرت کرنے لگو گے۔‘‘
زندگی
میں مومن کو جو اعلیٰ کارنامے انجام دینا ہیں اور فی الارض خلیفہ کی جس عظیم ذمہ داری
سے عہدہ برآ ہونا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ جسم میں جان ہو، ارادوں میں مضبوطی ہو،
حوصلوں میں بلندی ہو اور زندگی ولولوں، امنگوں اور اعلیٰ جذبات سے بھرپور ہو۔ صحت مند
اور زندہ دل افراد سے ہی قومیں بنتی ہیں اور ایسی ہی قومیں اعلیٰ قربانیاں پیش کر کے
اپنا مقام پیدا کرتی ہیں، مسلمان کا مقصد حیات جب دنیا بن جاتا ہے تو وہ غم، غصہ، رنج
و فکر، حسد، جلن، بدخواہی، تنگ نظری، مردہ دلی اور دماغی الجھنوں میں مبتلا ہو جاتا
ہے۔ یہ اخلاقی بیماریاں اور ذہنی الجھنیں معدے کو بری طرح متاثر کرتی ہیں اور معدے
کا فساد، صحت کا بدترین دشمن ہے۔ صحت خراب ہو جاتی ہے تو آدمی بزدل ہو جاتا ہے اور
اس کے اوپر خوف چھایا رہتا ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ
ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور
مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی
اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان
کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو
اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں
تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ
باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب
سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور
لازوال عیش ہے۔