Topics
نبی
مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے کہ جس شخص نے قرآن پڑھا اور اس کی تلاوت روزانہ
کرتا رہا اس کی مثال ایسی ہے جیسے مشک سے بھری زنبیل……کہ اس کی خوشبو چار سو مہک رہی
ہے اور جس شخص نے قرآن پڑھا لیکن اس کی تلاوت نہیں کرتا تو اس کی مثال ایسی ہے جیسے
مشک سے بھری ہوئی بوتل کہ اس کو ڈاٹ لگا کر بند کر دیا گیا ہے۔
تلاوت
سے پہلے طہارت، یکسوئی، توجہ اور پاک صاف جگہ کا ہونا بہت ضروری ہے۔ جب آپ قرآن پاک
کی تلاوت کریں تو پورے احترام، حضور قلب اور سلیقہ کے ساتھ تجوید اور ترتیل کا خیال
رکھیں۔ حروف ٹھیک ٹھیک اور ٹھہر ٹھہر کر ادا کریں۔
قرآن
پاک نہ زیادہ زور سے پڑھئے، نہ بالکل آہستہ، بلکہ درمیانی آواز سے پڑھئے۔ خداوند
قدوس کی ہدایت ہے:
’’اور
اپنی نماز میں نہ تو زیادہ زور سے پڑھئے اور نہ بالکل ہی دھیرے دھیرے بلکہ دونوں کے
درمیان کا طریقہ اختیار کیجئے۔‘‘
جو
لوگ قرآن کی تلاوت اس لئے کرتے ہیں کہ لوگ انہیں نیکوکار سمجھیں یا لوگ ان کے گرویدہ
ہو جائیں، اپنی خوش الحانی کا سکہ جمانے اور اپنی دینداری کی دھاک بٹھانے کیلئے قرآن
پڑھتے ہیں تو ایسے بندے قرآن کی ہدایت سے محروم رہتے ہیں۔
ہم
سب کے آقا نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے:
’’میری
امت کیلئے سب سے بہتر عبادت قرآن کی تلاوت ہے۔ بندہ تلاوت قرآن کے ذریعے خدا کا سب
سے زیادہ قُرب حاصل کرتا ہے۔‘‘
اللہ
کے دوست جن کیلئے اللہ نے یہ ساری کائنات تخلیق
کی اور جن کی بادشاہت عالمین پر محیط ہے اور جن کیلئے چاند، سورج، ستارے، ارض و سماوات
اور جو کچھ ان کے اندر ہے سب مسخر کر دیا گیا ہے۔ ایک بار چٹائی پر سو رہے تھے۔ چٹائی
پر لیٹنے سے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے جسم اطہر پر چٹائی کے نشانات پڑ گئے۔ حضرت
عبداللہؓ بن مسعود یہ دیکھ کر رونے لگے۔
رحمتہ
اللعالمین صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت عبداللہؓ کو روتے ہوئے دیکھ کر ارشاد فرمایا:
’’کیوں
رو رہے ہو؟‘‘
حضرت
عبداللہؓ نے عرض کیا:
’’یا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! قیصر و کسریٰ تو ریشم اور مخمل کے گدوں پر سوئیں اور
آپﷺ بوریئے پر۔‘‘
اللہ
کے حبیب صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
’’یہ
رونے کی بات نہیں۔ قیصر و کسریٰ کیلئے دنیا ہے اور ہمارے لئے آخرت ہے۔‘‘
نبی
صلی اللہ علیہ و سلم کے خادم خاص حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم
جب بستر پر تشریف لے جاتے تو یہ دعا پڑھتے:
ترجمہ:’’شکر
و تعریف خدا ہی کیلئے ہے جس نے ہمیں کھلایا، پلایا اور جس نے ہمارے کاموں میں بھرپور مدد فرمائی اور جس نے
ہمیں رہنے کو ٹھکانہ بخشا۔ کتنے ہی لوگ ہیں جن کا نہ کوئی معین و مددگار ہے نہ کوئی
ٹھکانہ دینے والا۔‘‘
حضرت
عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ایک بار ایک انصاری خاتون آئیں اور انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ
علیہ و سلم کا بستر دیکھا۔ گھر جا کر اس خاتون نے اون بھر کر خوبصورت اور نرم و ملائم
بستر تیار کیا اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم کیلئے بھیج دیا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ
و سلم جب تشریف لائے اور وہ نرم و ملائم بستر رکھا ہوا دیکھا تو فرمایا۔
’’یہ
کیا ہے؟‘‘
میں
نے عرض کیا۔ ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! فلاں انصاری خاتون آئی تھیں اور
آپﷺ کا بستر دیکھ کر گئی تھیں۔ یہ بستر ان ہی خاتون نے آپﷺ کیلئے بھیجا ہے۔‘‘
نبی
صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
’’نہیں،
اس کو واپس کر دو۔‘‘
مجھے
یہ بستر ہی پسند تھا اس لئے واپس کرنے کو دل نہیں چاہا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و
سلم نے اتنا اصرار فرمایا کہ بالآخر واپس کرنا پڑا۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ
ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور
مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی
اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان
کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو
اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں
تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ
باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب
سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور
لازوال عیش ہے۔