Topics
اولیاء اللہ سے متعلق جو غلط فہمیاں پائی جاتی
ہیں ان میں سے متعلق احادیث میں چند شواہد ملاحظہ ہوں۔
حضورﷺ
نے فرمایا میری امت میں ہر زمانہ میں پانچ سو اخیار ہوں گے۔ اور چالیس ابدال۔ ان دونوں
میں کمی نہ ہو گی ان میں سے جو فوت ہو گا ان پانچ سو میں سے اللہ تعالیٰ اس کی جگہ
دوسرے شخص کو ان چالیس میں داخل کر دے گا۔ اس امت میں تیس ابدال ہونگے جن کے قلوب حضرت
خلیل اللہ کے قلوب پر ہوں گے ان میں سے جو فوت ہو گا اللہ اس کی جگہ دوسرا بدل دے گا۔ (امام احمدؒ)
میری
امت میں تیس ابدال ہوں گے ان کے سبب سے زمین قائم رہے گی ان کی وجہ سے بارش برسائی
جائے گی اور ان کی وجہ سے مدد دی جائے گی۔ (طبرانی)
ابدال
شام میں ہوں گے ان کی وجہ سے تمہیں مدد دی جائے گی اور تمہیں رزق دیا جائے گا۔ (طبرانی)
خلال
کی حدیث جو اس نے کرامات اولیاء میں بیان کی ہے اور دیلمی نے مسند فردوس میں ہے کہ
ابدال چالیس مرد اور عورتیں ہیں جب ان میں سے کوئی مرد مر جاتا ہے اللہ اس کی جگہ دوسرا
مرد بدل دیتا ہے اور جب عورت مر جاتی ہے تو اس کی جگہ دوسری عورت بدل دیتا ہے۔
ابن
حبان: تیس اور اسی مردوں سے زمین خالی نہ رہے گی جو مثل ابراہیم خلیل اللہ کے ہونگے
جن کے سبب سے تمہاری فریاد رسی ہو گی ان کے سبب سے تمہیں رزق دیا جائے گا اور بارش
برسائی جائے گی۔
بیہقی:
میری امت کے ابدال اپنے اعمال کے سبب سے جنت میں داخل نہ ہوں گے بلکہ اللہ کی رحمت
سے نفسوں کی سخاوت سے اور سینوں کی سلامتی سے داخل ہونگے۔
ابدال
چالیس ہیں بائیس شام میں ہوتے ہیں اور اٹھارہ عراق میں، ان میں سے جو فوت ہو جاتا ہے
اللہ تعالیٰ اس کی جگہ دوسرا بدل دیتا ہے اور جب اللہ کا حکم آ جائے گا سب فوت ہو
جائیں گے اس وقت قیامت آئے گی۔ (ابن عدی)
صوفیہ
کی بعض اصطلاحات کی اصل تو خود قرآن و حدیث میں موجود ہے جیسے ابرار اخیار اور اقباء
وغیرہ علامہ سیوطی نے ان اصطلاحات پر ایک مستقل رسالہ لکھا ہے اس رسالہ میں غوث اور
قطب کی بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
ابن
مسعود سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ خدا کے تین سو بندے
مخلوق میں ہیں جن کے قلوب حضرت آدم علیہ السلام کے قلب کی مانند ہیں، چالیس ایسے ہیں
جن کے قلوب حضرت موسیٰ علیہ السلام کی مانند ہیں، سات ایسے ہیں جن کے قلوب حضرت ابراہیم
علیہ السلام کے قلب کی مانند ہیں، پانچ ایسے ہیں جن کے قلوب حضرت جبرائیل علیہ السلام
کے قلب پر ہیں، تین ایسے ہیں جن کے قلوب حضرت میکائیل علیہ السلام کے قلب پر ہیں اور
ایک بندہ ایسا ہے جس کا قلب حضرت اسرافیل علیہ السلام کے قلب پر ہے نیز فرمایا:
’’خطیب
سے بذریعہ ابوبکر بن ابی شعب حدیث کا اخراج کیا کہ میں نے کنانی سے سنا کہ نقباء تین
سو ہیں اور نجباء ستر ہیں۔ ابدال چالیس ہیں، اخیار سات، قطب چار اور غوث ایک ہے۔‘‘
اقطاب
کے فرائض کے متعلق امام ربانی سے تصریح فرما دی ہے۔
قطب
ابدال عالم کے وجود اور اس کی بقاء سے تعلق رکھنے والے امور میں تصرف کرتا ہے اور قطب
ارشاد ہدایت و ارشاد سے متعلق امور میں بااختیار ہے اس لئے پیدائش، رزق، مصائب کے دور
ہونے اور صحت و آرام کے حاصل ہونے کا تعلق قطب ابدال کے ساتھ مخصوص ہے اور ایمان،
ہدایت، نیک کاموں کی توفیق اور توبہ وغیرہ کا تعلق قطب ارشاد کے فیض کا نتیجہ ہے۔
قطب
مدار کے متعلق قاضی ثناء اللہ پانی پتی نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ
السلام کے واقعہ کے تحت امام ربانیؒ سے حضرت خضر علیہ السلام کا قول نقل فرمایا ہے:
حضرت
خضر علیہ السلام نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے ہم کو قطب مدار کا معاون بنایا ہے اور فرمایا
کہ قطب مدار یمن میں ہیں۔
اور
وہ حدیث جس کو علامہ سیوطی نے کنانی سے روایت کیا ہے یوں ہے:
نقباء
کا مسکن مغرب، نجباء کا مصر، ابدال کا شام اور اخیار سیاح ہوتے ہیں۔ قطب زمین کے گوشوں
میں ہوتے ہیں۔ جب مخلوق کو عوامی مصیبت آ جائے تو دعا کیلئے نقباء ہاتھ پھیلاتے ہیں۔
اگر قبول نہ ہو تو نجبائ، پھر اخیار، پھر قطب، اگر پھر بھی نہ ہو تو غوث دعا کیلئے
ہاتھ پھیلاتا ہے (گو یہ ترتیب ضروری نہیں) حتیٰ کہ اس کی دعا قبول ہو جاتی ہے۔ (علامہ
سیوطی)
قیوم
کے متعلق امام ربانی نے فرمایا:
وہ
عارف جو قیوم کے منصب پر فائز ہو وزیر کا حکم رکھتا ہے کہ مخلوق کے اہم امور کا تعلق
اسی سے ہے گو انعام تو بادشاہ کی طرف سے ہوتے ہیں مگر وہ وزیر کی وساطت سے ملتے ہیں۔
معرفت
توحید، فیضان کا عام اور جلد ہونا قطب وحدت اور افراد کی خصوصیات میں سے ہے اور معرفت
ذات باری تعالیٰ اس سے وابستہ ہوتی ہے۔
امام
ربانی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔
معلوم
ہوا کہ قیوم انسان کامل ہوتا ہے اور کل احکام ظاہری و باطنی قیوم کی ذات سے وابستہ
ہیں کیونکہ یہ بمنزلہ وزیر کے ہیں، یہ مفہوم حدیث سے ثابت ہے اور ’’میں تقسیم کنندہ
ہوں، دیتا اللہ تعالیٰ ہے‘‘۔
قیوم!
اولوالعزم رسول کا نائب ہوتا ہے اس کا مخالف فیض سے محروم رہتا ہے کیونکہ وہ حکومت
کے وزیر کا باغی ہوتا ہے اور باغی کو حکومت کی طرف سے انعام نہیں ملا کرتا۔
ہر
چیز اچھی یا بری سلطان الملک یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے وزیر کے ذریعے مخلوق کی طرف
آتی ہے۔ جب مخلوق مصیبت میں مبتلا ہو جاتی ہے تو غوث بارگاہ رب العزت میں درخواست
پیش کرتا ہے۔ خیال رہے کہ غوث کوئی خود مختار ہستی نہیں بلکہ مستجاب الدعوات ہوتا ہے
اسی طرح قیوم کل انعامات کا سبب ہوتا ہے اور قطب ابدال اور قطب ارشاد جزوی انعامات
کا ذریعہ ہیں اور خاص خاص ایک ایک انعام پر مقرر ہیں اور قطب وحدت اور فرد کا تعلق
براہ راست ذات باری تعالیٰ سے ہوتا ہے اس لئے ان کا مرتبہ غوث اور قیوم سے بہت بلند
ہے۔
لسان
العرب میں لفظ غوث کی تشریح یوں کی گئی ہے:
غوث
کے معنی ’’پکارنے والا‘‘ دعا کرنے والا، فریاد کرنے والا کے ہیں اس کی دلیل یہ ہے کہ
محاورہ عرب میں غوث بمعنی دعا اور پکارنے کے ہیں۔
اصطلاح
صوفیہ میں غوث اس مستجاب الدعوات ہستی کیلئے بولا جاتا ہے جو اللہ سے فریاد کرتا ہے
اور دعا کرتا ہے اور لغت عرب اس معنی کی تائید کرتی ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ
ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور
مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی
اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان
کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو
اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں
تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ
باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب
سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور
لازوال عیش ہے۔