Topics

مارچ 1983؁ء۔یکسوئی اور قلب

’’اے چادر میں لپٹنے والے! رات کو قیام کیجئے، مگر کچھ رات، آدھی رات یا اس سے کچھ کم یا کچھ زیادہ۔ اور قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھیئے۔ ہم جلد آپ پر ایک بھاری فرمان ڈالنے والے ہیں۔‘‘  (المزمل)

                بھاری فرمان سے مراد دین کی تبلیغ ہے۔ اس عظیم ذمہ داری کا حق ادا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ سے رابطہ قائم ہو۔ اللہ تعالیٰ سے رابطہ قائم ہونے کے لئے ذہنی یکسوئی کا ہونا ضروری ہے اور ذہنی یکسوئی حاصل کرنے کے لئے زمان ومکان کی بوقلمونی سے خود کو آزاد کرنا ہے۔ یہ آزادی پیغمبروں کی زندگی میں رچی بسی ہوئی ہے۔ ان کی طرز فکر یہ ہے کہ وہ ہر چیز کو اس کے حقیقی روپ میں دیکھتے ہیں۔

                رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسی طرز فکر کو حاصل کرنے کے لئے غار حرا میں مراقبہ کر کے ہماری رہنمائی فرمائی ہے اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں روشنی دکھائی ہے کہ اللہ کے فرمان کو عام کرنے اور تبلیغ دین کا حق ادا کرنے کے لئے خالق حقیقی سے ہمیں اس وقت بھی تعلق قائم کرنا ہے کہ جو وقت عامتہ الناس کے لئے استراحت اور نیند کا ہے۔

                حضورﷺ کا غار حرا میں قیام ہمیں سبق دیتا ہے کہ ماورائی صلاحیتیں اس وقت پیدا ہوتی ہیں جب آدمی دنیا سے عارضی طور پر اپنا رشتہ منقطع کر کے مراقبہ کرتا ہے۔ گہرائی میں سوچ بچار اور تفکر کا عمل ہی دراصل مراقبہ ہے۔

                قرآن پاک ہدایت و عبرت کا سرچشمہ ہے یہ اس لئے نازل ہوا ہے کہ اس کی آیات پر غور کیا جائے اور اس کے رموز و نکات سے فائدہ اٹھایا جائے۔

                ’’اور قرآن ٹھہر ٹھہر کر پڑھیئے‘‘ سے مراد اللہ کے کلام میں تفکر کرنا ہے۔ قرآن پاک اس عزم و ہمت کے ساتھ تلاوت کیجئے کہ ہمیں اس کی رہنمائی میں اپنی زندگی تعمیر کرنی ہے اور اس ہی ہدایت کے مطابق اپنے ماحول میں ایسے لوگ تیار کرنے ہیں جو نوع انسانی کے لئے فلاح کا راستہ بن جائیں۔

                خدا کے اور اس کے رسولﷺ کے مشن کو وہی لوگ چلا سکتے ہیں جو قرآن کو اپنے لئے غور و فکر کا مرکز اور محور بنا لیں۔ تلاوت کرنے والوں کو ہدایت کی گئی ہے۔

                ’’کتاب جو ہم نے آپ کی طرف بھیجی ہے سرتاسربرکت ہے تا کہ لوگ اس کی آیتوں میں غور اور تدبر کریں اور عقل سلیم رکھنے والے اس سے سبق حاصل کریں۔‘‘  (صٓ ۲۹)

                جو لوگ غور اور تدبر کی عظیم الشان صلاحیت کو اپنے اندر پیدا نہ کر لیں، ان کے لئے نہ خود صراط مستقیم پر قائم رہنا ممکن ہے اور نہ ہی وہ بھٹکتے ہوئے انسانوں کے لئے مشعل راہ بن سکتے ہیں۔ خدا سے گہرا تعلق پیدا کئے بغیر دعوت و تبلیغ کا کام خود فریبی کے سوا کچھ نہیں۔ اور خدا سے وابستگی پیدا کرنے کا یقینی ذریعہ صلوٰۃ اور مراقبہ ہے۔


                محبوب پروردگار، باعث تخلیق کائنات حضرت رحمت اللعالمینﷺ کا ارشاد ہے:

                ’’یہ قلوب زنگ آلود ہو جاتے ہیں جس طرح لوہا زنگ آلود ہو جاتا ہے جب اس پر پانی پڑتا ہے۔‘‘

                پوچھا گیا۔ ’’یا رسول اللہﷺ! پھر دلوں کے زنگ کو دور کرنے والی چیز کیا ہے؟‘‘

                فرمایا: ’’دل کا زنگ اس طرح دور ہوتا ہے کہ آدمی موت کو کثرت سے یاد کرے اور دوسرے یہ کہ قرآن کی تلاوت کرے۔‘‘

                نبی مکرمﷺ کا ارشاد ہے:

                ’’ان لوگوں کی طرف دیکھو جو تم سے مال و دولت میں اور دنیاوی جاہ و مرتبے میں کم ہیں۔ اور ان لوگوں کی طرف نہ دیکھو جو تم سے مال و دولت اور دنیاوی ساز و سامان میں بڑھے ہوئے ہوں تا کہ جو نعمتیں تمہیں اس وقت ملی ہوئی ہیں وہ تمہاری نگاہ میں حقیر نہ ہوں۔‘‘

                اس حدیث مبارکہ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ دنیاوی جاہ و مرتبہ میں کم لوگوں کی طرف دیکھنے سے ہمارے اندر شکر کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔

                نبی برحق صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے:

                ’’میں عیش و سہولت کی زندگی کیسے گزاروں! جب کہ اسرافیل صور منہ میں لئے، کان لگائے، سر جھکائے انتظار کر رہے ہیں کہ کب صور پھونکنے کا حکم ہوتا ہے۔‘‘

                میرے دوستو!

                عیش کوشی سے بچے رہو اور ایک ایسے سپاہی کی طرح زندگی کی ڈیوٹی انجام دیتے رہو جو کسی وقت بھی اپنی ڈیوٹی سے غافل نہیں ہوتا۔

                مسلمان کا کردار یہ ہے کہ وہ عصبیت تنگ نظری اور دھڑے بندی سے دور رہتا ہے۔ کشادہ دل اور خوش اخلاقی سے ہر ایک سے تعاون کرتا ہے اور جو لوگ بھی مخلصانہ طرزوں میں صراط مستقیم پر گامزن ہو کر اللہ کی مخلوق کی خدمت کرتے ہیں ان کے ساتھ خیر خواہی اور اخلاص کا برتائو کرتا ہے۔ باہمی منافرت، کشیدگی، بغض و عناد اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے عمل سے خود کو محفوظ رکھتا ہے۔

                نیک اور پاکیزہ نفس لوگ وہ ہیں جو دل کی گہرائی سے اپنی قوتوں اور صلاحیتوں کو خدا کی راہ میں قربان کر دیتے ہیں اور یہ ہی وہ لوگ ہیں جو اس عارضی زندگی میں خدا کے دین کی کچھ خدمت کر جاتے ہیں۔

Topics


نورنبوت نور الٰہی-V1

خواجہ شمس الدین عظیمی

زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور لازوال عیش ہے۔