Topics
اور ہم تمہیں ضرور خوف و خطر، بھوک،
جان و مال کے نقان اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کر کے تمہاری آزمائش کرینگے
اور خوش خبری ہے ان لوگوں کے لئے جو مصیبت پڑنے پر کہتے ہیں کہ ہم خدا ہی کے ہیں
اور خدا ہی کی طرف ہمیں جانا ہے ان پر ان کے رب کی طرف سے بڑی عنایات ہوں گی۔ اور
اس کی رحمت ہو گی اور ایسے ہی لوگ راہ ہدایت پر ہیں۔ (القرآن)
نبی
مکرم علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد ہے:
’’جب
کوئی بندہ مصیبت پڑنے پر انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھتا ہے تو خدا اس کی مصیبت
کو دور فرما دیتا ہے۔ اس کو اچھے انجام سے نوازتا ہے اور اس کو پسندیدہ چیز اس کے
صلے میں عطا کرتا ہے۔
جو
مصائب روئے زمین پر آتے ہیں اور جو آفتیں تم پر آتی ہیں وہ سب اس سے پہلے کہ ہم
انہیں وجود میں لائیں ایک کتاب میں ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ بات خدا کے لئے
آسان ہے تا کہ تم اپنی ناکامی پر غم نہ کرتے رہو۔
اللہ
تعالیٰ نبی مکرم علیہ الصلوٰۃ والسلام سے پوچھتے ہیں
اے
ہمارے پیارے نبیﷺ! تم کیا سمجھے علیین کیا ہے اور تم کیا سمجھے کہ سجیین کیا ہے۔
یہ ایک لکھی ہوئی کتاب ہے جو کچھ تم کرتے ہو، شر کا عمل ہو یا خیر کا عمل ہو، ایک
ایک ذرہ تولا جاتا ہے۔ (القرآن)
بندہ
جو کچھ کرتا ہے اور جو کچھ سوچتا ہے اور جو کچھ چاہتا ہے وہ سب ایک فلم کی صورت
میں ریکارڈ ہو جاتا ہے۔ اسی طرح انفرادی سوچ سے گزر کر اجتماعی عمل کے خیر و شر کا
بھی ریکارڈ ہوتا رہتا ہے۔ خیر کا سارا عمل علیین ہے اور شر کا سارا عمل سجیین ہے۔
سجیین اضطراب، بے چینی، پریشانی، درماندگی، مفلسی اور زندگی کے ہر موڑ پر تذلیل
اور محرومی ہے۔ علیین کے ریکارڈ پر جب سجیین کے ریکارڈ کا غلبہ ہو جاتا ہے تو
آسمانوں سے بلائیں نازل ہوتی ہیں۔ ناگہانی آفتوں کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو
جاتا ہے۔ زمین بانجھ ہو جاتی ہے۔ مائوں نکی گودیں اجڑ جاتی ہیں۔ سہاگنوں کے سروں
پر سے آنچل اتر جاتے ہیں۔ خوف و دہشت کے بادل آسمان پر اس طرح چھا جاتے ہیں کہ
زندگی بلی اور چوہے کا کھیل بن جاتی ہے۔ آتش بازی آتش فشاں بن کر لوگوں کو جھلس
دیتی ہے۔ جوڑ کھل جاتے ہیں اور اعضاء ٹوٹ ٹوٹ کر زمین پر بکھر جاتے ہیں۔ پر رونق
روشن بستیوں میں دھوئیں کی سیاہی پھیل جاتی ہے اور پھر یہ سیاہی دلوں پر اس طرح
چھا جاتی ہے کہ ایک دوسرے کی خبر نہیں رہتی۔ موت کے رقص میں زندگیاں گھنگھرو کی
جھنکار بن کر فضائے بسیط میں تحلیل ہو جاتی ہیں……علیین…امن و سکون کا گہوارہ ہے۔
قلبی سکون ہے۔ عزت و احترام کی علامت ہے۔ نوع انسانی کے لئے علیین ایک ایسی
دستاویز ہے جس میں عزت و مرتبے کے ساتھ اقتدار ہے، حاکمیت ہے۔ نہ صرف زمین پر
حاکمیت ہے بلکہ فرشتوں اور آسمانوں پر حکمرانی ہے۔
اور
ہم نے تمہارے تابع فرمان کر دیا جو کچھ زمین میں ہے اور جو کچھ آسمانوں میں ہے۔
سب کا سب اور ہم نے تمہارے تابع فرمان کر دیا سورج کو چاند کو ستاروں کو اور ہم نے
تمہارے تابع کر دیا رات کو اور دن کو۔
(قرآن)
یہاں
وہاں اور ساری کائنات پر اللہ کے قانون کے مطابق فی الارض خلیفہ آدم کی حاکمیت
ہے۔ یہی حاکمیت جب زمین کی وسعت اور آسمان کی رفعت سے آدم زاد کی اپنی پست انا
کی طرف لوٹ جاتی ہے تو آدم زاد علیین کے عالم سے نکل کر سجیین کے عالمین میں قید
ہو جاتا ہے۔ یہی وہ قید ہے جس میں پستی، تنزل، غلامی اور محرومی کی زنجیروں میں
آدم زاد اس طرح جکڑا جاتا ہے کہ اس کی اپنی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی۔ وہ دوسروں
کا محتاج اور خود سے دور ہو جاتا ہے۔ اور جب ایسا ہو جاتا ہے تو دوسری قومیں اپنے
ذاتی مفاد اور اپنے اقتدار کے لئے لوگوں کو آتش بازی میں جھونک دیتی ہیں۔ محتاج
اور مفلس و قلاش لوگ ان خود غرض لوگوں کی ہوس زر کی بھٹیوں کے ایندھن بن کر راکھ
ہو جاتے ہیں۔
آج
کی دنیا سائنسی آتش فشاں کے کنارے کنارے نزع کے عالم میں ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ
کب سائنسی آتش فشاں پھٹ پڑے اور دنیا مفلوج اور معذور ہو کر سسک سسک کر پیوند
زمین ہو جائے۔
علیین
اور سجیین کے ریکارڈ پر شعوری آنکھ دیکھتی ہے کہ خدا سے بیزاری اور قرآن سے دوری
سراسر ہلاکت اور آزردگی ہے۔
نبی
مکرم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ایک دعا ہے:
خدایا
میں تیرا بندہ ہوں، میرا باپ تیرا بندہ ہے، میری ماں تیری بندی ہے، میں ہمہ تن
تیرے بس میں ہوں، تیرا ہی حکم میرے ہر عمل میں نافذ ہے، میرے بارے میں تیرا ہر حکم
سراسر انصاف ہے، میں تیرے ہر اس نام کا واسطہ دے کر جس سے تو نے اپنی ذات کو موسوم
کیا یا اپنی کتاب میں نازل کیا یا اپنی مخلوق میں سے کسی کو سکھایا یا اپنے پاس
خزانہ غیب ہی میں اس کو مستور رہنے دیا۔ تجھ سے درخواست کرتا ہوں کہ کتاب الٰہی
قرآن کو میرے دل کی بہار، میری آنکھوں کا نور، میرے غم کا علاج اور میری تشویش
کا مداوا بنا دے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ
ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور
مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی
اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان
کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو
اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں
تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ
باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب
سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور
لازوال عیش ہے۔