Topics

مئی1984؁ء-قرآن ضابطۂ حیات

قرآن مجید ہمیں ایسی اخلاقی اور روحانی قدروں سے آشنا کرتا ہے جن میں زمان و مکان کے اختلاف سے تبدیلی نہیں ہوتی۔ قرآن ہمیں ایسے ضابطۂ حیات سے متعارف کراتا ہے کہ جو دنیا میں رہنے والی ہر قوم کے لئے قابل عمل ہے۔ اگر قرآن کی بتائی ہوئی اخلاقی اور روحانی قدریں سوئٹزرلینڈ کی منجمد فضائوں میں زندہ اور باقی رہنے کی صلاحیت رکھتی ہیں تو افریقہ کے تپتے ہوئے صحرا بھی ان قدروں سے مستفیض ہوتے ہیں۔ جس طرح مادی دنیا میں رہنے کے لئے ایسے آداب معاشرت اور قوانین موجود ہیں جو زمان و مکان کے اختلاف سے تبدیل نہیں ہوتے اسی طرح روحانی زندگی کے بھی کچھ قوانین ہیں جن میں تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔

                نوع انسانی کا یہ علم ہے کہ آگ جسم کو جلاتی ہے۔ آدم سے تا ایں دم اور قیامت تک آگ کا جلانا ایک مسلمہ امر ہے۔ ہر زمانے اور ہر خطہ زمین پر آگ کا یہ وصف قائم ہے کہ آگ جلا دینے والی شئے ہے۔ جس طرح صحت کے اصولوں کی خلاف ورزی ہے اس جہان آب و گل میں جسمانی صحت متاثر ہوتی ہے۔ اسی طرح روح کی صحت کے لئے بھی حفظان صحت کے اصول متعین ہیں جن اصولوں سے ہماری روحانی صحت برقرار رہتی ہے۔ یہی وہ اصول ہیں جن کا پرچار تمام پیغمبروں نے اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کیا ہے۔ یہ روحانی صحت کو برقرار رکھنے کے اصول دو حصوں میں تقسیم ہیں۔ پہلا حصہ اللہ کے حقوق اور دوسرا حصہ بندوں کے حقوق۔ بندے کے اوپر اللہ کا یہ حق ہے کہ بندے کو اللہ کی ذات اور صفات کی معرفت حاصل ہو، اس کا دل اللہ کی محبت سے سرشار ہو، اس کے اندر عبادت کا ذوق اور اللہ کے عرفان کا تجسس کروٹیں لیتا ہو۔ بندے کا اللہ کے ساتھ اس طرح تعلق استوار ہو جائے کہ بندگی کا ذوق اس کی رگ رگ میں رچ بس جائے۔

                بندہ یہ بات اپنے پورے ہوش و حواس کے ساتھ جان لے کہ میرا اللہ کے ساتھ ایک ایسا رشتہ ہے جو کسی آن، کسی لمحے اور کسی وقفے میں نہ ٹوٹ سکتا ہے، نہ معطل ہو سکتا ہے، نہ ختم ہو سکتا ہے۔ یہ بات بھی حقوق اللہ میں شامل ہے کہ بندہ اس بات سے باخبر ہو اور اس کا دل اس بات کی تصدیق کرے کہ میں نے عالم ارواح میں اس بات کا عہد کیا ہے کہ میرا رب، مجھے بنانے والا، خدوخال بکش کر میری پرورش کرنے والا اور میرے لئے وسائل فراہم کرنے والا اللہ ہے اور میں نے اللہ سے اس بات کا عہد کیا ہے کہ میں زندگی، خواہ وہ کسی عالم کی زندگی ہو، آپ کا بندہ اور آپ کا محکوم ہو کر گزاروں گا۔

                حقوق العباد یہ ہے کہ انسان اس بات کا یقین رکھے ساری نوع انسان اللہ کا ایک کنبہ ہے اور میں خود اس کنبے کا ایک فرد ہوں۔ جس طرح کوئی انسان اپنی فلاح و بہبود اور اپنی آسائش کے لئے اصول وضع کرتا ہے۔ اسی طرح ہر انسان پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ اپنے بھائی کی آسائش و آرام کا خیال رکھے۔ انبیاء اور اہل اللہ کی تاریخ پر اگر نظر ڈالی جائے تو یہ بات مظہر بن کر سامنے آتی ہے کہ تمام انبیائے کرام اور تمام اہل اللہ نے مخلوق کی خدمت کو اپنا نصب العین قرار دیا ہے۔

                اللہ کی مخلوق کی خدمت کا سچا اور مخلصانہ جذبہ انسان کے اندر محبت، اخوت، مساوات اور مسامتا کو جنم دیتا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کوہ طور پر چالیس راتیں عبادت میں اس لئے گزاریں کہ ان کے پیش نظر بنی اسرائیل کو بھرپور فیض سے نوازنا تھا۔ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام غار حرا سے باہر تشریف لائے تو نبی نوع انسان کو بے پناہ مادی اور روحانی فیض حاصل ہوا۔ اور حضورﷺ نے غار حرا کی تاریکی میں گیان دھیان کر کے جو نعمت حاصل کی اس نعمت سے آدم زاد کی پیاسی روحوں کو سیراب فرمایا۔

                قرآن پاک کی روحانی اور انسانی قدروں کا تذکرہ کر کے بندوں کو حقوق العباد اور حقوق اللہ کی ادائیگی کے طریقے سکھاتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ اپنے حقوق کا تذکرہ فرماتے ہیں تو کہتے ہیں کہ وہ بادشاہ ہے۔ وہ خداوند قدوس ہے، وہ سلامتی اور امن دینے والا ہے، وہ نگہبان ہے، وہ غالب اور دبدبے والا ہے اور کبریائی اسی کو زیب دیتی ہے، وہ خالق کائنات ہے، موجد کائنات ہے اور صورت گر موجودات ہے۔

                بندہ جب اللہ تعالیٰ  کے حقوق پورے کرنے کی سعادت حاصل کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس عمل کو قبول فرماتا ہے۔ سورۂ انعام میں ارشاد ربانی ہے:

                ’’انسان کی آنکھیں اللہ کا ادراک نہیں کرتیں اور اللہ آنکھوں کا ادراک کر لیتا ہے۔‘‘

                یعنی بے بضاعت اور بے نظر انسان جو اپنی آنکھوں سے اللہ کو نہیں دیکھ سکتا، اللہ خود آنکھوں کا ادراک بن کر اس کے سامنے آ جاتا ہے۔ سورۂ بقرہ میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

                ’’میں تو تیرے قریب ہوں، تو مایوس ہوتا ہے۔ میں تو ہر پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں۔

                اللہ تعالیٰ یہ بھی فرماتے ہیں:

                ’’تم جہاں بھی جاتے ہو میں تمہارے ساتھ ہوتا ہوں۔‘‘

                قربت کے مزید اظہار کے لئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

                ’’ہم تو تمہاری شہ رگ سے بھی زیادہ تمہارے قریب ہیں۔‘‘

                ناقابل ادراک ہونے کے باوجود اللہ انسان کے ساتھ اپنی معیت اور قربت کا بار بار اعلان کرتا ہے۔ سورہ فجر میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

                ’’بلاشبہ تیرا پرورگار تجھے ہر دم جھانک رہا ہے۔‘‘

                حقوق العباد ک ے ضمن میں قرآن پاک کی تعلیم اور ہدایت ہر شعبے میں دلیل راہ ہے۔ قرآن پاک جب اصول معاشیات بیان کرتا ہے تو کہتا ہے:

                ’’جو لوگ سونا چاندی جمع کرتے ہیں اور اپنے بھائی بندوں پر ضرورت کے وقت اسے خرچ نہیں کرتے ان کے لئے درد ناک عذاب کی بشارت ہے۔ جس روز دوزخ کی آگ میں اسے (دولت) کو گرم کیا جائے گا اور اس دولت سے ان کی پیشانیاں، ان کے پہلو اور ان کی پیٹھ داغی جائے گی یہی ہے وہ دولت جو تم اپنے لئے سمیٹ کر رکھتے تھے۔ پس دولت سمیٹنے کا مزہ چکھو۔‘‘ (سورہ توبہ)

                حقوق العباد کے سلسلے میں قرآن ہمیں تہذیب اور شائستگی بھی سکھاتا ہے۔ اس نے ہمیں ایک دوسرے سے ملنے جلنے اور تعلقات برقرار رکھنے کے اصول بھی بتائے ہیں۔ سورۂ نساء میں ہے:

                ’’اور جب تمہیں سلام کیا جائے تو تم زیادہ تپاک اور گرم جوشی سے سلام کا جواب دو۔‘‘

                سورۂ لقمان میں ہے:

                ’’زمین پر اکڑتے ہوئے مت چلو، بلاشبہ اس متکرابہ چال سے تم نہ تو زمین میں شگاف ڈال سکتے ہو اور نہ پہاڑوں کے برابر لانبے ہو سکتے ہو۔‘‘

                گفتگو کا تذکرہ آتا ہے تو قرآن کہتا ہے:

                ’’بات کرتے ہوئے آواز کو دھیما رکھو، گدھوں کی آواز یقیناً نہایت بھدی اور بھونڈی ہوتی ہے۔‘‘

                سورۂ نور میں ہے:

                ’’اے ایمان والو! اپنے گھروں کے علاوہ اوروں کے گھروں میں اطلاع دیئے بغیر اور سلام کے بغیر نہ داخل ہوا کرو۔‘‘

                دو آدمی مجلس میں بیٹھ کر اگر سرگوشی کریں تو وہاں موجود دوسرے آدمیوں کے دل میں یہ خیال آ سکتا ہے کہ شاید ہماری نسبت کوئی بات کہی جا رہی ہے۔ اگر یہ نہیں تو اتنا گمان تو ضرور ہوتا ہے کہ ہمیں اس قابل نہیں سمجھا کہ ہمیں اپنی گفتگو میں شریک کیا جائے۔ اس خفت اور بدگمانی کو ختم کرنے کے لئے قرآن پاک نے مجلس میں بیٹھنے کے آداب بیان کئے ہیں اور سورۂ مجادلہ میں فرمایا ہے:

                ’’سرگوشی پر شیطان ہی اکساتا ہے تا کہ دو مسلمانوں کو رنجیدہ کرے۔‘‘

Topics


نورنبوت نور الٰہی-V1

خواجہ شمس الدین عظیمی

زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور لازوال عیش ہے۔