Topics

مئی 1990؁ء۔شوہر اور بیوی کے فرائض

تبلیغی کام اپنے گھر سے شروع کیجئے۔ اگر آپ کے گھر میں آپ کی رفیقۂ حیات یا آپ کا رفیق سفر دینی اور روحانی علوم سے بہرہ ور ہیں تو آپ دونوں بچوں کی بہترین تربیت کر سکتے ہیں۔ بچہ کا پہلا گہوارہ ماں کی آغوش اور باپ کی گود ہے۔ آپ دونوں اگر اسلامی اخلاق سے آراستہ ہوں گے تو بچوں کی تربیت اور سدھار کے لئے گھر تعلیم و تربیت کا پہلا اسکول بن جائے گا۔

                مرد کے اوپر فرض ہے کہ بچوں اور بیوی کی تمام ضروریات پوری کرے۔ عورت کے اوپر فرض ہے کہ ازدواجی زندگی خوش گوار بنائے رکھے۔ دونوں کو چاہئے کہ اپنے قول و عمل اور انداز و اطوار سے ایک دوسرے کو خوش رکھنے کی کوشش کریں۔ کامیاب ازدواجی زندگی کا یہی راز ہے اور خدا کو خوش رکھنے کا ذریعہ بھی۔

                اللہ تعالیٰ آپ کو جو اولاد دیتا ہے، اسے کبھی ضائع نہ کیجئے۔ پیدا ہونے سے پہلے یا پیدا ہونے کے بعد اولاد کو ضائع کرنا بدترین سنگ دلی، بھیانک ظلم، انتہائی بزدلی اور دونوں جہان کی تباہی ہے۔ ولادت کے وقت ولادت والی عورت کے پاس آیت الکرسی اور سورۂ اعراف کی آیتیں ۵۴۔۵۵ پڑھیں اور سورۂ فلق اور سورۂ الناس پڑھ کر دم کریں۔ ولادت کے بعد بچہ کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کا دن میں اقامت کہئے۔ اذان اور اقامت کے بعد کسی نیک مرد یا نیک عورت سے کھجور چبوا کر بچے کے تالو میں لگوایئے اور بچے کے لئے خیر و برکت کی دعا کرایئے۔ بچوں کے نام ایسے رکھئے جن کے معانی اور مفہوم اچھے ہوں پھر ساتویں دن عقیقہ کیجئے۔

                بچوں کو ڈرایئے نہیں کیوں کہ ابتدائی عمر میں دماغ میں چھپا ہوا ڈر ساری عمر ذہن سے چمٹا رہتا ہے اور خوف زدہ بچے زندگی میں کوئی بڑا کام سر انجام دینے کے قابل نہیں رہتے۔

                اولاد کو ہر وقت سخت و سست کہنا اور ہر وقت برا کہتے رہنا بھی غلط ہے۔ اس سے بچے کی صحیح پرورش نہیں ہوتی اور وہ ڈانٹ ڈپٹ کو روزانہ کا معمول سمجھنے لگتا ہے۔ بچے نادان ہوتے ہیں، ان کی کوتاہیوں پر بیزار ہونے کی بجائے۔ یہ سوچیئے کہ آپ بھی ان ہی کی طرح بچہ تھے اور آپ سے بھی بے شمار کوتاہیاں سرزد ہوتی تھیں۔ نفرت کا اظہار کرنے کی بجائے حکمت، تحمل اور بردباری سے ان کو سمجھایئے۔ ان کو یہ تاثر دیجئے کہ آپ ان کے ہمدرد ہیں۔ ان کے سروں پر شفقت سے ہاتھ پھیریئے تا کہ ان کے اندر اطاعت اور فرماں برداری کے جذبات ابھر آئیں۔

 

 

نور نبوت

                اخلاق، خوش مزاجی اور دل کی نرمی کو پرکھنے کے لئے اصل مقام آپ کا گھر ہے۔ جہاں آپ اپنی بیوی اور بچوں سے محبت بھی کرتے ہیں اور اصلاح و تربیت کے لئے اپنا اقتدار بھی چاہتے ہیں۔ گھر کی بے تکلف زندگی میں ہی طبیعت اور مزاج کا ہر رخ سامنے آتا ہے۔ صحیح معنوں میں وہی بااخلاق اور نرم خو ہے جو حفظ مراتب کے ساتھ اپنے گھر والوں سے خندہ پیشانی اور مہربانی سے پیش آئے۔

                حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں۔

                ’’میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے یہاں گڑیوں سے کھیلا کرتی تھی اور میری سہیلیاں بھی میرے ساتھ کھیلتی تھیں۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لاتے تھے تو سب چھپ جاتیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ڈھونڈ ڈھونڈ کر ایک ایک کو میرے پاس بھیجتے تا کہ وہ میرے ساتھ کھیلیں۔‘‘

                ایک بار حج کے موقع پر حضرت صفیہؓ کا اونٹ بیٹھ گیا اور وہ سب سے پیچھے رہ گئیں۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے دیکھا کہ وہ زار و قطار رو رہی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم رک گئے اور اپنے دست مبارک سے چادر کا پلو لے کر حضرت صفیہؓ کے آنسو پونچھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلمن آنسو پونچھتے جاتے تھے اور وہ بے اختیار روتی جاتی تھیں۔

                نبی صلی اللہ علیہ و سلم جس طرح باہر تبلیغ و تعلیم میں مصروف رہتے تھے اسی طرح گھر میں بھی اس فریضہ کو ادا کرتے رہتے۔ قرآن نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی بیویوں کو خطاب کیا ہے:

                ’’اور تمہارے گھروں میں جو خدا کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں اور حکمت کی باتیں سنائی جاتی ہیں، ان کو یاد رکھو۔‘‘

                اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے واسطے سے مومنوں کو ہدایت کی گئی ہے:

                ’’اور اپنے گھر والوں کو صلوٰۃ کی تاکید کیجئے اور خود بھی پابند رہیئے۔‘‘

                نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے:

                ’’جب کوئی مرد رات میں اپنی بیوی کو جگاتا ہے اور وہ دونوں مل کر دو رکعت ادا کرتے ہیں تو شوہر کا نام ذکر کرنے والوں اور بیوی کا نام ذکر کرنے والیوں میں لکھ لیا جاتا ہے۔‘‘

Topics


نورنبوت نور الٰہی-V1

خواجہ شمس الدین عظیمی

زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور لازوال عیش ہے۔