Topics

مئی 1985؁ء۔اکیزگی اور لطافت

’’یہ چوپائے اور اڑنے والے جانورو تمہارے طرح امتیں ہیں۔‘‘  (سورۂ انعام۔ ۲۸)

                پرندوں، چوپائوں اور حشرات الارض کو نزلہ زکام اور ملیریا نہیں ہوتا…انہیں کھانسی اور دق و سل جیسی بیماریاں بھی لاحق نہیں ہوتیں۔ آج تک نہیں سنا گیا کہ کسی کبوتر یا چڑیا کو کینسر ہوا ہو۔ یہ بھی بات نوع انسانی کے دانشوروں کے سامنے نہیں آئی کہ جنگل میں رہنے والے چوپائے نفسیاتی مرض میں مبتلا ہوئے ہوں۔ اس بات کو بھی کوئی شہادت نہیں ملتی کہ کسی پرندے یا چرندے کے دل کے والوو بند ہوئے ہوں۔ جانوروں کی نوعوں میں بڑھاپے کے آثار بہت کم ظاہر ہوتے ہیں ان کے منہ پوپلے نہیں ہوتے۔ ان کی آنکھوں پر عینک نہیں لگتی۔ وہ عمر طبعی تک چست اور پھرتیلے رہتے ہیں… کیا ہم نے کبھی یہ سوچنے کی تکلیف گوارا کی ہے کہ ایسا کیوں ہے؟

                اس لئے کہ اللہ کی یہ مخلوق اور انسانی شماریات سے کہیں زیادہ نوعیں اور ہر نوع کے بے شمار افراد مناسب غذا کھاتی ہیں ان کے یہاں کسی قسم کی غذائی ملاوٹ نہیں ہوتی۔ ان نوعوں کی زندگی میں براہ راست ورزش کا عمل دخل ہے یہ سب نوعیں ایک نظام حیات کی پابند ہیں… حالات کے مطابق یہ اپنا نظام حیات بھی بدلتے رہتے ہیں۔

                ’’کیا تم دیکھتے نہیں کہ زمین و آسمان کی ہر چیز آئین الٰہی پر عمل پیرا ہے اور پرندے بھی ایک نظام کو نباہ رہے ہیں ان میں سے ہر ایک اپنی نماز اور دستور العمل سے آگاہ ہے۔‘‘ (سورہ نور۔ ۴۱)

                وہ پرندے اور چوپائے بدنصیب ہیں جو انسانی ماحول میں زندگی گزارتے ہیں۔ انسان کی پھیلائی ہوئی گندگی اور غلاظت سے متاثر ہو کر طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔

                انسان جو خود کو اشرف المخلوقات کہتا ہے۔ اتنا غلیظ اور گندا ہے کہ بار بار تھوکتا ہے اپنے ارد گرد کوڑے کرکٹ کا ڈھیر لگائے رکھتا ہے۔ گھروں میں صفائی کا فقدان ہے تو گلیوں میں تعفن کے طوفان اٹھتے رہتے ہیں۔ گفتگو کی جائے تو منہ سے بدبو آتی ہے… جسمانی اتصال ہو جائے تو پسینے کی بو سے دماغ پھٹنے لگتا ہے۔ خشک چہرے اور خشک بال اور بالوں کے اندر جوئیں اس کی نفاست اور طہارت سے بے پرواہی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

                اے انسان جنگلی جانوروں کو دیکھ۔ ان کے گھونسلوں اور نشیمنوں میں کیسی صفائی پائی جاتی ہے۔ بلی زمین میں گڑھا کھودتی ہے اور اپنا فضلہ اس میں چھپا دیتی ہے۔ اللہ کی مخلوق انسانی ماحول میں رہنے والی بلی ہمیں ہر روز صفائی اور طہارت کا سبق دیتی ہے۔

                اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

                ’’اے انسان میل کچیل اور غلاظت سے دور رہ۔‘‘ (سورہ مدثر)

                زندہ قوموں کی تعریف یہ ہے کہ صفائی، نفاست، پاکیزگی ان کی زندگی کا ایک محرک عمل بن جاتا ہے۔ اور جن قوموں میں صفائی اور طہارت نہیں ہوتی وہ پاکیزگی کے احساس سے ہی محروم ہو جاتی ہیں۔ ان میں پرندوں کے پروں کا اجلا پن۔ چوپائوں کے جسم کا حسن اور آنکھوں میں کشش باقی نہیں رہتی۔ وہ گینڈے کی طرح بھدی۔ گدھ کی طرح غلیظ اور الّو کی طرح بدحواس اور اونگھی قوم بن جاتی ہے۔

                اپنے محبوب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

                ’’اے جسم کو لباس سے زینت دینے والے رسول اٹھ! قوم کو غلاظت کے نتائج سے خبردار کر ۔اللہ کی عظمت بیان کر۔ اجلے کپڑے پہن اور ہر قسم کے میل کچیل سے دور رہ۔‘‘ (سورہ مدثر۔ ۱ تا ۵)

                ہماری حالت یہ ہے کہ ہم صرف پانچ فرض احکام کی بجاآوری میں اپنی نجات سمجھتے ہیں باقی ہزاروں احکامات کو مستحب کہہ کر گزر جاتے ہیں۔

                اے مسلمان! غور کر، تیری بھلائی غلاظت اور ناپاک کاموں کی وجہ سے آج پوری مسلمان قوم کی صحت کا کیا حال ہے۔ قوم کا ہر فر دبیمار نظر آتا ہے۔ معصوم اور پھولوں جیسے بچوں کے چہرے کمہلائے ہوئے اور زرد نظر آتے ہیں۔ غلیظ مکانات اور پراگندہ خیالات نے مسلمان قوم کا وقار کس قدر کم کر دیا ہے۔ اجتماعی تمدنی، معاشرتی وسعتوں سے نکل کر ہم غیر اقوام کے آلہ کار بن گئے ہیں اور ہمارے اوپر غلامی مسلط کر دی گئی ہے۔

                قرآن کا ایک حکم ہے

                ’’صفائی اختیار کرو۔‘‘

                کو چھوڑ کر ہم کتنے ذلیل و خوار ہو گئے ہیں۔

                اے قوم تو کیوں غور نہیں کرتی کہ

                اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم ہمیں روحانی، جسمانی نجاستوں اور غلاظتوں سے نجات دلانے کے لئے تشریف لائے ہیں۔

                سورہ ابراہیم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

                ’’اے رسول ہم نے تجھے یہ بلند کتاب اس لئے دی کہ تو دنیا کو غلاظت و کثافت کی تاریکیوں سے نکال کر نفاست، پاکیزگی اور لطافت کی روشنیوں کی طرف رہنمائی کرے۔‘‘

Topics


نورنبوت نور الٰہی-V1

خواجہ شمس الدین عظیمی

زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور لازوال عیش ہے۔