Topics

مئی 1983؁ء۔مشن اور آزمائش

اس کتاب میں ابراہیم کے قصے یاد کیجئے، بلاشبہ وہ ایک سچے نبی تھے۔ جب انہوں نے اپنے والد سے کہا۔ بابا جان! آپ ان چیزوں کی عبادت کیوں کر رہے ہیں جو نہ سنتی ہیں اور نہ دیکھتی ہیں اور نہ آپ کے کسی کام آ سکتی ہیں؟ بابا جان! میرے پاس وہ علم آیا ہے جو آپ کے پاس نہیں آیا ہے۔ آپ میرے کہے پر چلیں، میں آپ کو سیدھی راہ چلائوں گا۔ باباجان! آپ شیطان کی بندگی نہ کریں، شیطان تو بڑا نافرمان ہے، بابا جان! مجھے ڈر ہے کہ رحمان کا عذاب آ پکڑے اور آپ شیطان کے ساتھ بن کر رہ جائیں۔

                باپ نے کہا۔ ابراہیم! کیا تم میرے معبودوں سے پھر گئے ہو، اگر تم باز نہ آئے تو میں تمہیں پتھر مار مار کر ہلاک کر دوں گا، اور جائو ہمیشہ کے لئے مجھ سے دور ہو جائو۔

                ابراہیم  نے کہا۔ آپ کو میرا سلام ہے، میں اپنے پروردگار سے دعا کروں گا کہ وہ آپ کی بخشش فرما دے، بیشک میرا رب مجھ پر بڑا ہی مہربان ہے۔ میں آپ لوگوں سے بھی کنارہ کرتا ہوں اور ان ہستیوں سے بھی جن کو خدا کو چھوڑ کر پکارتے ہو، میں تو اپنے رب ہی کو پکاروں گا۔ مجھے امید ہے کہ میں اپنے رب کو پکار کر ہرگز نامراد نہ ہوں گا۔   (سورۂ مریم۔ ۴۱۔۴۸)

                اللہ کے پیغام کو پہنچانے اور ہر قسم کی قربانی کے لئے اپنے اندر ہمت و عزم پیدا کر کے خدا کی راہ میں وقت اور پیسہ خرچ کیجئے۔ اللہ تعالیٰ کے لئے صعوبتیں برداشت کرنا اور لوگوں تک اللہ اور اس کے رسول کا پیغام پہنچا دینا امت مسلمہ پر فرض اور ان نعمتوں کا شکر ہے جو اللہ ہمارے رب نے ہمیں دی ہوئی ہیں۔ جب کوئی بندہ اپنی تمام تر روحانی اور جسمانی صلاحیتوں کے ساتھ نوع انسانی کو صراط مستقیم کی دعوت دیتا ہے تو اسے اللہ تعالیٰ کے فرشتوں کا خصوصی تعاون حاصل ہو جاتا ہے اور فرشتے اس بندہ کے جذبۂ صادق کو اپنے ترغیبی پروگراموں میں شامل کر لیتے ہیں۔ لیکن تبلیغ اسی شخص کو زیب دیتی ہے جس کے اندر روحانی صلاحیتیں بیدار ہوں اور وہ خود بھی راہ حق کا سچا اور پُرعزم مسافر ہو۔

                راہ حق کے سچے مسافر کے لئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

                والذین جاھدو فینا لنھدینھم سبلنا


                یہ اُس زمانہ کا واقعہ ہے جب سنگ دل لوگ نبیﷺ اور نبیﷺ کے جاں نثار ساتھیوں پر بے پناہ ظلم و ستم کر رہے تھے۔ حضرت خبابؓ فرماتے ہیں:

                ’’نبی صلی اللہ علیہ و سلم بیت اللہ کے سائے میں چادر سر کے نیچے رکھے آرام فرما رہے تھے۔ ہم آپ کے پاس شکایت لے کر پہنچے۔ یا رسول اللہﷺ! آپ ہمارے لئے خدا سے مدد طلب نہیں فرماتے، آپ اس ظلم کے خاتمے کی دعا نہیں کرتے۔

                حضور اکرمﷺ نے یہ سن کر فرمایا:

                تم سے پہلے ایسے لوگ گزرے ہیں کہ ان میں سے بعض کے لئے گڑھا کھودا جاتا، پھر اس گڑھے میں کھڑا کر دیا جاتا، پھر آرا لایا جاتا اور اس کے جسم کو چیرا جاتا یہاں تک کہ اس کے جسم کے دو ٹکڑے ہو جاتے۔ پھر بھی وہ اپنے دین سے نہ پھرتا اور اس کے جسم میں لوہے کے کنگھے چبھوئے جاتے جو گوشت سے گزر کر ہڈیوں اور پٹھوں تک پہنچ جاتے مگر وہ خدا کا بندہ حق سے نہ پھرتا۔ قسم ہے خدا کی یہ دین غالب ہو کر رہے گا۔ یہاں تک کہ سوار (یمن کے دارالخلافہ) صنعا سے حضرموت تک کا سفر کرے گا اور راستے میں خدا کے سوا اس کو کسی کا خوف نہ ہو گا۔ البتہ چرواہوں کو صرف بھیڑیوں کا خوف ہو گا کہ کسی بکری کو اٹھا نہ لے جائیں۔ لیکن افسوس کہ تم جلد بازی سے کام لے رہے ہو۔‘‘

                کسی مشن کو کامیاب بنانے کے لئے آزمائشیں ضروری ہیں۔ جب تک آزمائش سے آدمی نہیں گزرتا، مقصد کی تکمیل نہیں ہوتی۔ مقصد ہمہ گیر ہو یا اس کی حیثیت انفرادی ہو، آزمائش لازم ہے۔ ہم کوئی بھی کام کرتے ہیں اس کی تکمیل تک پہنچنے کے لئے ہمیں مختلف مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ اور ان مراحل میں ہر مرحلہ دراصل ایک آزمائش ہے۔ ہم اس آزمائش پر پورے اترتے ہیں تو نتائج مثبت نکلتے ہیں اور اگر ہم آزمائش سے جی چراتے ہیں تو نتیجہ منفی نکلتا ہے۔

                آیئے! ہم عہد کریں کہ اللہ کے دوست اور محبوب رب العالمینﷺ کے وارث، ابدال حق، قلندر بابا اولیائؒ کے روحانی مشن کو ساری دنیا میں پھیلانے کے لئے ہر آزمائش پر پورے اتریں گے اور نہایت خندہ پیشانی، حسن اخلاق اور مدبرانہ حکمت سے لوگوں کو یہ باور کرائیں کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا عرفان حاصل کرنے کے لئے خود اپنی روح کا عرفان ضروری ہے۔

                من عرف نفسہ فقد عرف ربہ

Topics


نورنبوت نور الٰہی-V1

خواجہ شمس الدین عظیمی

زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور لازوال عیش ہے۔