Topics
جس طرح خالق کائنات
اللہ کی اطاعت فرض ہے بالکل اسی طرح اللہ کے محبوب بندے حضرت محمد رسول اللہﷺ کی اطاعت
بھی فرض ہے۔
اللہ پاک نے رسول اللہﷺ کی اطاعت کو
دین کی اساس اور بنیاد قرار دیا ہے۔
ترجمہ: ’’جو شخص رسول (ﷺ) کی پیروی کرے
گا تو بے شک اس نے خدا کی پیروی کی‘‘۔ (سورۂ
نسائ)
ترجمہ: ’’ تو جو لوگ آپ کے حکم کی مخالفت
کرتے ہیں ان کو ڈرنا چاہئے کہ ایسا نہ ہو، ان پر کوئی آفت آ پڑے یا تکلیف والا عذاب
نازل ہو‘‘۔ (سورۂ النور)
قرآن پاک میں فرمانِ الٰہی کے مطابق
اطاعتِ رسولﷺ امتی کے لئے اہم اساس ہے کہ اس سے انکار کفر کے برابر ہے۔ اللہ کے رسولﷺ
کی اطاعت رحمتِ الٰہی کا ذریعہ ہے۔ کسی بھی مسئلہ میں اختلاف رائے کی صورت میں اللہ
اور اس کے رسولﷺ کا فیصلہ ہی آخری فیصلہ ہے۔ اللہ اور اس کے رسولﷺ پر ایمان کے تقاضے
اسی وقت پورے ہو سکتے ہیں جبکہ رسول اللہﷺ کی اطاعت کو حرزِ جاں بنا لیا جائے۔ محبت
الٰہی صرف اسی صورت میں حاصل ہو سکتی ہے کہ رسول اللہﷺ کے ارشادات و اعمال کی پیروی
کی جائے۔ ایمان اس وقت تک تکمیل پذیر نہیں ہوتا جب تک رسول اللہﷺ کے احکام وار امر
کو پورے اخلاص سے تسلیم نہ کیا جائے۔
نورِ نبوت
حضور نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے:
’’میری مثال اس شخص کی سی ہے جس نے آگ
جلائی اور جب آس پاس کا ماحول آگ کی روشنی سے چمک اٹھا۔ کیڑے، پتنگے اس پر گرنے لگے
اور وہ شخص پوری قوت سے ان کیڑوں پتنگوں کو روک رہا ہے لیکن پتنگے ہیں کہ اس کی کوشش
کو ناکام بنائے دیتے ہیں اور آگ میں گھسے پڑے رہے ہیں (اسی طرح) میں تمہیں کمر سے
پکڑ پکڑ کر آگ سے روک رہا ہوں اور تم ہو کہ آگ میں گرے پڑ رہے ہو‘‘۔ (الترغیب الترتیب، مجمع الزوائد)
رسول اللہﷺ کے خلاف مکہ کے سردار سازشوں
میں مصروف ہیں۔ منافقین و مشرکین آپﷺ کے جان کے درپے ہیں۔ ان ہی دنوں مکے کو اچانک
قحط نے آ گھیرا……ایسا قحط کہ قریش کے لوگ پتے اور چھال کھانے پر مجبور ہو گئے۔ بچے
بھوک سے بلبلاتے اور بڑے اُن کی حالت زار دیکھ کر تڑپ تڑپ اٹھتے تھے۔ رحمت کون و مکاںﷺ
ان لوگوں کو اس لرزہ خیز مصیبت میں مبتلا دیکھ کر بے قرار ہو گئے۔ آپﷺ کے مخلص ساتھی
بھی آپﷺ کا اضطراب دیکھ کر تڑپ اٹھے۔ آپﷺ نے اپنے جانی دشمن کو، جن کے پہنچائے زخم
ابھی بالکل تازہ تھے، اپنی دلی ہمدردی کا پیغام بھیجا۔ ابوسفیان اور صفوان کے پاس پانچ
سو دینار بھیج کر کہلوایا کہ یہ دینار ان قحط کے مارے ہوئے غریبوں میں تقسیم کر دیئے
جائیں۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ
ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور
مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی
اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان
کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو
اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں
تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ
باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب
سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور
لازوال عیش ہے۔