Topics

فروری 2005؁۔ندے کے اوپر اللہ کاحق

لا الہ الا اللہ

              بندے کے اوپر اللہ کا یہ حق ہے کہ بندے کو اللہ کی ذات اور صفات کی معرفت حاصل ہو۔ اس کا دل اللہ کی محبت سے سرشار ہو۔ اس کے اندر عبادت کا ذوق اور اللہ کے عرفان کا تجسس کروٹیں لیتا ہو۔ بندے کا اللہ کے ساتھ اس طرح تعلق استوار ہو جائے کہ بندگی کا ذوق اس کی رگ رگ میں رچ بس جائے اور بندہ اپنے پورے ہوش و حواس کے ساتھ یہ جان لے کہ میرا اللہ کے ساتھ ایک رشتہ ہے جو کسی آن، کسی لمحے اور کسی وقت بھی نہ ٹوٹ سکتا ہے، نہ معطل ہو سکتا ہے اور نہ ختم ہو سکتا ہے۔ یہ بات بھی حقوق اللہ میں شامل ہے کہ بندہ اس بات سے باخبر ہو اور اس کا دل اس بات کی تصدیق کرے کہ میں نے عالم ارواح میں یہ عہد کیا ہے کہ میرا رب مجھے تخلیق کرنے والا، خدوخال بخش کر میری پرورش کرنے والا اور میرے لئے وسائل فراہم کرنے والا اللہ ہے اور میں نے اللہ سے اس بات کا عہد کیا ہے کہ میں اپنی زندگی، خواہ وہ کسی عالم میں ہو، آپ ہی کا بندہ ہو کر گزاروں گا۔

 

نورِ نبوت

محمد رسول اللہ

جو انسان اپنی روح سے واقف ہو جاتا ہے اُس کا اللہ اور سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے قلبی اور روحانی تعلق قائم ہو جاتا ہے۔ کلمہ پڑھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی امت میں داخل ہونا ابتدائی عمل ہے۔ اب ہمیں یہ کوشش کرنی ہے کہ اس مادی و زبانی تعلق کے ساتھ ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ہمارا روحانی تعلق بھی قائم ہو جائے اور اس کا طریقہ تفکر یا مراقبہ ہے۔ جس آن یا جس گھڑی یہ روحانی تعلق قائم ہو جاتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے دربار میں حاضری ممکن ہو جاتی ہے اور ایسے لوگ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے منظورِ نظر ہو جاتے ہیں اور وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے دربار میں حاضر ہو کر صلوٰۃ و سلام پیش کر سکتے ہیں۔

              الصلوٰۃ والسلام علیک یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم۔ 

Topics


نورنبوت نور الٰہی-V1

خواجہ شمس الدین عظیمی

زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور لازوال عیش ہے۔