Topics
’’(اے اللہ! آپ) ہمیں سیدھا راستہ
دکھایئے۔ ان لوگوں کا راستہ جن کو آپ نے اپنے انعام سے نوازا۔ مغضوب اور معتوب لوگوں
کے راستوں سے بچایئے۔‘‘ (سورۃ الفاتحہ)
مخلوق کی اس استدعا کا جواب اللہ نے
یوں دیا۔
’’اور تم پر جو مصائب آتے ہیں وہ تمہارے
ہی کرتوتوں کا نتیجہ ہیں اور خدا تو بہت خطائوں سے درگزر کرتا ہے۔‘‘ (سورۃ الشوریٰ)
’’اللہ انہی لوگوں کی توبہ قبول کرتا
ہے جو نادانی سے بُرا کام کر بیٹھتے ہیں اور پھر جلد ہی توبہ کر لیتے ہیں پس ایسے لوگوں
پر اللہ مہربانی کرتا ہے۔ اور وہ سب کچھ جانتا اور حکمت والا ہے۔‘‘ (سورۃ النسائ)
اپنے ہی کرتوتوں کی ہیبت ناک دلدل میں
اپنے ہی ہاتھوں سے بنائے ہوئے اَن دیکھے شکنجوں میں مقیّد قوم یا فرد جب اپنے رب سے
عہدِ وفا استوار کرتا ہے، اپنے کرتوتوں پر نادم ہوتا ہے، اپنی نا اہلی کا اقرار کرتا
ہے، اپنے رب کے آگے گڑگڑاتا ہے اور اتنا روتا ہے کہ آخر کار اس کی روح کا سارا نظام
ساری کثافتوں سے دھل جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ ایسی قوم یا ایسے فرد سے بہت خوش ہوتا
ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف پلٹنے کو قرآن پاک کی زبان میں توجہ کہا گیا ہے اور یہی توجہ
(اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا) ہی دین و دنیا کے تمام مسائل کے حل اور ہر قسم کے خوف
و غم سے محفوظ رہنے کا واحد اور حقیقی علاج ہے۔
دل کی عمیق گہرائیوں سے اللہ تعالیٰ
کی ذات کو پہچانئے۔ دل و دماغ، احساسات و جذبات، افکار و قیادت اور اللہ تعالیٰ کی
عطا کردہ دوسری تمام صلاحیتوں کو مجتمع کر کے اپنے رب کی طرف یکسوئی اور دھیان سے متوجہ
ہو جایئے۔ دوسروں کے لئے اپنی زندگی کو عشق و وفا کی چلتی پھرتی، منہ بولتی تصویر اور
نمونہ بنا دیجئے بلاشبہ ایسے افراد کو اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کی صف میں شامل کر
لیتا ہے جس کا مشاہدہ روح کی آنکھیں اور روحانی لوگ کرتے رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے
ان مخصوص بندوں کا ایک سلسلہ ہے جس میں شامل ہونے کے بعد انسان کا دل، دماغ اور نفس
مطمئن ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے ایسے بندوں پر اپنے فضل و کرم سے رحمتوں، برکتوں
اور انوار و تجلیات کی بارش فرماتا ہے۔
ایک مرتبہ رسول اللہﷺ نے صحابہ کرامؓ
کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ’’میری امت پر وہ وقت آنے والا ہے جب دوسری قومیں اس پر
اس طرح ٹوٹ پڑیں گی جس طرح کھانے والے دسترخوان پر ٹوٹ پڑتے ہیں‘‘۔ کسی نے پوچھا یا
رسول اللہﷺ کیا اُس زمانے میں ہماری تعداد اتنی کم ہو جائے گی کہ ہمیں نگل لینے کے
لئے قومیں متحد ہو کر ہم پر ٹوٹ پڑیں گی؟
ارشاد فرمایا ’’نہیں۔ اس وقت تمہاری
تعداد کم نہ ہو گی بلکہ تم بہت بڑی تعداد میں ہو گئے البتہ تم سیلاب میں بہنے والے
تنکوں کی طرح بے وزن ہو گے۔ تمہارے دشمنوں کے دل سے تمہارا رعب نکل جائے گا اور تمہارے
دلوں میں پست ہمتی گھر کر لے گی‘‘۔ اس پر ایک آدمی نے عرض کیا ’’یا رسول اللہﷺ یہ
پست ہمتی کس وجہ سے آجائے گی؟‘‘
رسول اللہﷺ نے فرمایا ’’اس وجہ سے کہ تم دنیا سے
محبت اور موت سے نفرت کرنے لگو گے‘‘۔
ایک باہمت بہادر انسان (مسلمان) جس کا
دل اپنے رب کی محبت میں سرشار ہے، کسی بھی حال میں حالات کے آگے سرنگوں نہیں ہوتا۔
دنیا کی محبت اسے دامن گیر نہیں ہوتی اور موت کے کرخت وجود کو اپنے سامنے دیکھ کر وہ
مسکراتا ہے۔ تاریخ میں ایسے بے شمار افراد کا تذکرہ ملتا ہے جنہوں نے جام شہادت اس
طرح ہنستے مسکراتے پی لیا جیسے کوئی شہد کا پیالہ ہو۔
جب دنیا سے محبت اور مرنے کا خوف پیداہو
جاتا ہے تو انسان دوسری اقوام کے سامنے سر جھکا لیتا ہے اور اس طرح نہ صرف خود کو ذلیل
کرتا ہے بلکہ اپنے قومی وقار کو مجروح کرتا ہے۔
یاد رکھئے!
ان اجتماعی کمزوریوں کا سدِّباب کریں۔
بزدلی اور احساس کمتری کا شکار ہو کر کسی بے بس پرندے کی طرح دشمنوں کے جال میں گرفتار
نہ ہوں۔ دشمنوں کا خوف خیانت کے باعث پیدا ہوتا ہے۔ قحط ملاوٹ اور ناپ تول میں کمی
کے باعث پڑتا ہے۔ جہاں ناحق فیصلے ہوں گے وہاں جھگڑا، فتنہ و فساد، خون ریزی ضرور ہو
گی۔ بدعہد قوم پر اس کے دشمن ہر حال میں اپنا تسلط جما لیتے ہیں۔
آیئے!
ہم سب مل کر اپنا محاسبہ کریں اور دیکھیں کہ اس وقت ہم کہاں اور کس حال میں کھڑے ہیں۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ
ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور
مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی
اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان
کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو
اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں
تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ
باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب
سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور
لازوال عیش ہے۔