Topics

فروری 1991؁۔نسبت اویسیہ

روحانی علوم سیکھنے کے لئے اور روحانی دنیا میں داخل ہونے کے لئے دو طرزیں متعین ہیں۔ ایک طرز کا نام قرب نوافل ہے اور ایک طرز کا نام قرب فرائض ہے۔ قرب نوافل ہو یا قرب فرائض، دونوں علوم کسی روحانی انسان سے یا کسی ولی یا پیغمبر سے یا کسی ولی اللہ کی روح سے منتقل ہوتے ہیں۔ اولیاء اللہ کی ارواح سے منتقل ہونے والے علوم جس طریقہ پر یا جس طرح منتقل ہوتے ہیں، تصوف میں ان کا اصلاحی نام ’’نسبت اویسیہ‘‘ ہے۔ نسبت اویسیہ کا پہلا انکشاف حضور بڑے پیر صاحب حضرت شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانیؒ کے طریقہ تصرف میں ہوا۔ یہ نسبت ایسی نسبت ہے کہ روح کے اندر علوم منتقل کر دیئے جاتے ہیں۔ اور وہاں سے یہ علوم کسی چشمے کی طرح( وہ چشمہ پہاڑمیں ہو یا زمین میں ہو) پھوٹ پڑتا ہے۔ اور پھر یہی چشمہ یا علوم کا خزانہ اندر اندربہتے بہتے فوارے کی صورت میں بہہ نکلتا ہے۔ حضرت غوث الاعظمؒ کے بعد سے یہ سلسلہ اسی طرح جاری و ساری ہے۔

                اس تمہید کا مفہوم یہ ہوا کہ نسبت اویسیہ کا فیضان مخفی طور پر ملاء اعلیٰ کے ذریعے یا انبیائے کرام کی ارواح کی معرفت یا قرب فرائض کے اولیاء اللہ کی روح کے واسطے سے ہوتا ہے۔

                نسبت اویسیہ کے لئے کسی ولی اللہ کے مادی جسم کا سامنے ہونا ضروری نہیں ہے۔ یہ نسبت بہت قوی نسبت ہوتی ہے۔ اور اس نسبت کا مظاہرہ بہت دیر میں ہوتا ہے۔ اور بسا اوقات یہ ہوتا ہے کہ جس بندے کو یہ نسبت حاصل ہے اسے آخر وقت تک نسبت کا علم نہیں ہوتا۔ اولیاء اللہ کی ارواح یا انبیاء کی ارواح یا ملاء اعلیٰ کے ذریعے یہ منتقل ہونے والے روحانی علوم جب عین (روح انسانی) یا ثابتہ (روح اعظم) میں ذخیرہ ہو تو عین اور ثابتہ ان سے بھر جاتے ہیں یا روح انسانی اور روح اعظم ان علوم کے انوار اور روشنیوں سے معمور ہو جاتی ہے تو یہ روحانی علوم۔ روح انسانی اور روح اعظم کے کناروں سے باہر آ جاتے ہیں اور ان علوم کا کناروں سے باہر آنا سالک (روحانی مسافر) کے اوپر شہودی کیفیت طاری کر دیتا ہے۔ نسبت اویسیہ کے تحت اندرونی آنکھ کھلنے والے سالک کی حیثیت بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ پہلی نظر، نظر سے مراد پہلا شہود ملاء اعلیٰ کا ہوتا ہے یعنی روحانی مسافر کی آنکھ کھلتی ہے تو نظروں کے سامنے ملاء اعلیٰ آ جاتے ہیں۔ ملاء اعلیٰ سے مراد گروہ جبرائیل اور گروہ میکائیل ہیں۔ ملاء اعلیٰ کا شہود جس زون میں ہوتا ہے، اس زون کا نام ’’بیت المعمور‘‘ ہے۔ بیت المعمور عرش کے اوپر کا مقام ہے۔

                قانون روحانیت کے تحت فرشتوں کے الگ الگ طبقے ہیں۔

                عنصریون۔ ملائکہ ارضی۔ ملائکہ سماوی۔ رضوان۔ زمانیا۔ ملاء اعلیٰ۔ حاملان عرش……

                قدرت نے کائناتی سسٹم میں فرشتوں کو عامل کارکنان کی حیثیت سے ڈیوٹیاں دی ہیں۔ روحانی آنکھ دیکھتی ہے کہ ہر بندہ بشر کے ساتھ ہر لمحہ ہر آن بیس 20ہزار فرشتے کام کرتے ہیں۔

                صحابہ کرامؓ کو سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذات اقدس میں اتنا زیادہ انہماک تھا کہ ان کے اندر روح انسانی حضرت محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے نور نبوت سے معمور رہتی تھی۔ صحابہ کرامؓ کے نور نبوت سے معمور ہونے کی حالت کو تصوف ’’نسبت سکینہ‘‘ کے نام سے بیان کرنا ہے۔ نسبت سکینہ کی تعریف یہ ہے کہ پہلے روحانی شاگرد خود کو کسی روحانی انسان کے اندر جذب کر دیتا ہے۔ اس طرح جذب ہو جانا عشق ہے۔ جذب ہونے کے بعد یا روحانی انسان کی روشنیوں کو جذب کر لینے کے بعد جو کیفیت ہوتی ہے ۔

                ان دونوں کیفیتوں ’’عشق اور جذب‘‘ کے مجموعے کا نام نسبت سکینہ ہے۔ نسبت سکینہ سے سالک کی طرز فکر میں روحانی استاد یا مرشد کریم کی طرز فکر منتقل ہو جاتی ہے۔ روحانی شاگرد کے خیالات، تصورات اور احساسات میں اتنی تبدیلی واقع ہو جاتی ہے کہ شاگرد اپنے روحانی استاد کی طرح سوچنے لگتا ہے……اور مرشد کریم کی طرح اس کے تمام اعمال و افعال ہو جاتے ہیں۔

                نسبت جذب وہ نسبت ہے جس کو تبع تابعین کے بعد سب سے پہلے خواجہ بہارالحق نے نشان بے نشانی کا نام دیا ہے۔ نقشبندی جماعت اس نسبت کو ’’نسبت یادداشت‘‘ سے جانتی ہے۔ نشان بے نشانی سے مراد یہ ہے کہ عارف کا ذہن اس سمت میں سفر کرے جس سمت میں ازل سے پہلے کے نقوش موجود ہیں۔ جب ازل سے پہلے کے نقوش یعنی اللہ کا ذہن اور اللہ کا ذاتی علم عارف کے قلب میں بار بار وارد ہوتا ہے تو روحانی مسافر (سالک) کو ’’وحدت‘‘ احاطہ کر لیتی ہے اور اسے ہر سُو، ہر سمت، ہر طرف موجود اور لاموجود شئے میں اللہ نظر آنے لگتا ہے۔ کوئی بھی کام ہو، کوئی بھی عمل ہو، کوئی بھی اقدام ہو……سالک کی افتاد طبیعت یہ بن جاتی ہے کہ وہ ارادی طور پر اور اختیاری وغیراختیاری طور پر ہر چیز ہر بات اور ہر عمل میں اللہ کو تلاش کرنا شروع کر دیتا ہے۔ اور وہ قرآن پاک کی اس آیت کی تفسیر بن جاتا ہے۔

                ’’اور وہ لوگ جو راسخ فی العلم ہیں کہتے ہیں

                ہمارا یقین اور مشاہدہ ہے کہ ہر چیز ہمارے اللہ اور ہمارے رب کی طرف سے ہے۔‘‘

                ماخوذ از تشریح لوح و قلم لیکچر نمبر 34

Topics


نورنبوت نور الٰہی-V1

خواجہ شمس الدین عظیمی

زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور لازوال عیش ہے۔