Topics
مال و دولت سے محبت انسان کے اندر رچی
بسی ہوئی ہے اور وہ مال و دولت کی محبت میں اس قدر مبتلا ہے کہ خود قرآن کو کہنا
پڑا کہ
’’بے
شک انسان مال و دولت کی محبت میں بڑا شدید ہے۔‘‘
انسان
سمجھتا ہے کہ مال و دولت کے انبار اس کی ضروریات کی کفالت کرتے ہیں چنانچہ وہ گن
گن کر مال و دولت جمع کرتا ہے اور اس یقین کی وجہ سے اس کی یہ حالت ہو جاتی ہے کہ
مرتے دم تک مال و دولت کے معاملے میں دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش میں لگا رہتا
ہے۔ اس دوڑ میں وہ اپنے بھائیوں کے حقوق کے اتلاف کی بھی پرواہ نہیں کرتا۔ قدرت نے
اسے توانائیوں کے جو بیش بہا خزانے کسی اور مقصد کے لئے عطا کئے ہیں وہ انہیں ہوس
زر میں صرف کر دیتا ہے۔
انسان
کہتا ہے کہ جو کچھ میں کماتا ہوں وہ میرے دست و بازو کی قوت پر منحصر ہے اس لئے
میں جس طرح چاہوں اسے خرچ کروں کوئی مجھے روکنے والا نہیں ہے اور یہی وہ طرز فکر
ہے جو آدمی کے اندر سرکشی اور بغاوت کی تخم ریزی کرتی ہے۔ جب یہ سرکشی تناور درخت
بن جاتی ہے تو اس کا اللہ سے ذہنی رشتہ ٹوٹ جاتا ہے اور آدمی کا شمار ذریت قارون
میں ہونے لگتا ہے۔
اہل
ایمان کے دلوں میں دولت کی اہمیت کو کم کرنے اور انہیں عطیہ خداوندی کا احساس
دلانے کے لئے قرآن پاک میں جگہ جگہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے لئے مال و دولت کو
کھلا رکھنے کی ترغیب دی گئی ہے طرح طرح سے لوگوں کے دلوں میں یہ بات بٹھانے کی
کوشش کی گئی ہے کہ پاک اور حلال کمائی میں سے اللہ کی راہ میں خرچ کرنا اللہ کی
نعمتوں کا شکر ادا کرنا ہے۔ مال و دولت کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے متعلق یہاں
تک کہہ دیا گیا کہ
’’تم
نیکی اور اچھائی کو نہیں پا سکتے جب تک کہ وہ چیز اللہ کی راہ میں نہ دے دو جو
تمہیں عزیز ہے۔‘‘
اللہ
کی راہ میں خرچ کرنے کی حدود کو وسیع کرتے ہوئے کہا گیا کہ
’’اے
نبیﷺ! وہ تم سے پوچھتے ہیں کہ اللہ کی راہ میں کیا خرچ کریں۔ کہہ دو کہ اپنی ضرورت
سے زائد۔‘‘
ان
احکام خداوندی کو سامنے رکھتے ہوئے اللہ کی مخلوق کی خدمت کیلئے زیادہ سے زیادہ
خرچ کیجئے۔ یہ کام سب سے پہلے اپنے مستحق رشتہ داروں سے شروع کیجئے اور پھر اس میں
دوسرے ضرورتمندوں کو بھی شامل کر لیجئے۔
یاد
رکھئے! جو کچھ آپ اللہ کے لئے خرچ کریں وہ محض اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کیلئے ہو،
اس میں کوئی غرض، بدلہ یا شہرت کا حصول پیش نظر نہ ہو۔
ضرورت
مندوں کی امداد پوشیدہ طریقے سے کریں تا کہ آپ کے اندر بڑائی یا نیکی کا غرور
پیدا نہ ہو اور ان کی عزت نفس مجروح نہ ہو۔ کسی کو کچھ دے کر احسان نہ جتائیں اور
نمود و نمائش کا اظہار نہ کریں۔
ارشاد
خداوندی ہے:
’’مومنو!
اپنے صدقات احسان جتا کر اور غریبوں کا دل دکھاکر اس شخص کی طرح خاک میں نہ ملا دو
جو محض لوگوں کو دکھانے کے لئے خرچ کرتا ہے۔‘‘
اگر
کوئی آپ سے سوال کرے تو اسے جھڑکئے نہیں۔ اگر آپ اسے کچھ دینے کی حیثیت نہیں
رکھتے تو مناسب الفاظ اور نرم لہجے میں معذرت کر لیجئے۔
قرآن
پاک کا حکم ہے:
’’اور
مانگنے والے کو نہ جھڑکو۔‘‘
انسان
کامل خاتم النبیین صلی اللہ علیہ و سلم سخاوت، فیاضی اور مستحقین کی دست گیری میں
سب سے ممتاز تھے۔ صحابہؓ کا کہنا ہے کہ ہم نے آپﷺ سے زیادہ سخی اور فیاض کسی کو
نہیں دیکھا۔ یہ آپ کا طرز عمل اور اعلیٰ عملی نمونہ تھا جس نے ایک ایسا معاشرہ
تشکیل دیا جس میں لوگ اپنی کمائی اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے لئے بے قرار رہتے
تھے۔
حضور
اکرمﷺ کا یہ حال تھا کہ کوئی ضرورت مند آپﷺ کے دروازے سے خالی ہاتھ نہ جاتا تھا۔
اگر آپﷺ کے پاس اسے کچھ دینے کو نہیں ہوتا تھا تو آپﷺ کسی سے لے کر اسے عطا کرتے
تھے۔ زمانہ نبوت سے پہلے بھی یتیموں، بیوائوں اور مساکین کی امداد آپﷺ کا شیوہ
تھی۔ چنانچہ جب پہلی مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم پر وحی کا نزول ہوا اور بشری
تقاضے کی وجہ سے آپ پریشان ہوئے تو حضرت خدیجہؓ نے ان الفاظ میں تسلی دی۔
’’آپ
پریشان نہ ہوں، اللہ آپ کو تنہا نہ چھوڑے گا، آپ یتیموں کے والی ہیں اور بیوائوں
کی سرپرستی فرماتے ہیں۔‘‘
تاریخ
شاہد ہے کہ جب حضور اکرمﷺ نے مکہ کی صاحب ثروت خاتون حضرت خدیجہؓ سے نکاح فرمایا
تو آپﷺ نے اپنی ساری دولت راہ خدا میں خرچ کر دی۔
یہ
فیضان نبوت کا اثر تھا کہ نبیﷺ کا گھرانہ بھی انہی روایات کا علمبردار بنا جو نبی
نے بطور ورثہ نوع انسانی کیلئے چھوڑی تھیں۔ ان لوگوں کے متعلق ارشاد خداوندی ہوا
کہ
’’ان
کا یہ حال ہے کہ خود تنگی کی حالت میں رہتے ہیں اور دوسروں کو اپنے آپ پر ترجیح
دیتے ہیں۔‘‘
حضور
اکرمﷺ نے مال و دولت کو راہ خدا میں کھلا رہنے کی تلقین طرح طرح سے کی۔ ایک مرتبہ
فرمایا:
’’آدم
کے بیٹے کا یہ حال ہے کہ کہتا ہے کہ میرا مال! میرا مال! تیرا مال تو وہی ہے جو تو
نے صدقہ کیا اور آگے بھیج دیا۔ کھا لیا تو اس کو فنا کر چکا اور پہن لیا تو اس کو
پرانا کر چکا۔‘‘
ایک
مرتبہ زبان نبوت یوں گویا ہوئی:
’’اے
آدم ؑ کے بیٹے! تیرا دینا تیرے لئے بہتر اور تیرا رکھ چھوڑنا تیرے لئے بُرا ہے۔‘‘
ہمارے
اوپر فرض ہے کہ ہم اپنے نبی کریمﷺ کے اسوۂ حسنہ کی روشنی میں اپنی کمائی کو مخلوق
خدا کی بھلائی کے بہترین مصرف میں صرف کریں تا کہ اس سے ہماری اپنی ذات کی نشوونما
ہو اور معاشرہ سے معاشی ناہمواری کے عفریت کا خاتمہ ہو جائے…رحمت اللعالمینﷺ نے
ارتکاز دولت پر بار بار اظہار ناپسندیدگی فرمایا اور اسے مستحقین کی ضروریات پر
خرچ کرنے کی تلقین فرمائی۔
حضرت
ابوسعید خدریؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’جس
کے پاس سواری کے لئے زائد اونٹ ہو وہ اسے دے دے جس کی پاس سواری نہیں۔ جس کے پاس
زائد زاد راہ ہو وہ اسے دے دے جس کے پاس زاد راہ نہیں۔‘‘
حضرت
ابوسعیدؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ اسی طرح مختلف اموال کا ذکر فرماتے رہے حتیٰ کہ
ہم نے محسوس کر لیا کہ ضرورت سے زائد مال رکھنے کا ہم میں سے کسی کو حق نہیں ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ
ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور
مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی
اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان
کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو
اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں
تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ
باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب
سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور
لازوال عیش ہے۔