Topics

فروری 1980؁ء-خوف و غم سے نجات

ظلم و بربریت اور فتنہ و فساد کی ہیئت ہو یا قدرتی عذابوں کی تباہ کاریوں کا خوف، ہر حال میں بصیرت کے ساتھ اس کے اصل اسباب کا سراغ لگایئے اور سطحی تدبیروں پر وقت ضائع کرنے کی بجائے کتاب و سنت کے مطابق اپنی تمام صلاحیتوں کو کام میں لا کر صراط مستقیم پر قدم بڑھا دیجئے۔

                اللہ تعالیٰ نے سورۃ الشوریٰ میں فرمایا ہے:

                ’’اور تم پر جو مصائب آتے ہیں وہ تمہارے ہی کرتوتوں کا نتیجہ ہیں اور خدا تو بہت خطائوں سے درگذر کرتا ہے۔‘‘

                ’’اور تم سب مل کر خدا کی طرف پلٹو، اے مومنو! تا کہ تم فلاح پائو۔‘‘

                گناہوں کے ہیئت ناک دلدل میں پھنسی ہوئی اُمّت جب اپنے گناہوں پر نادم ہو کر خدا کی طرف پھر جذبۂ زندگی کے ساتھ پلٹتی ہے اور اشکہائے ندامت سے اپنے گناہوں کی گندگی دھو کر پھر خدا سے عہد وفا استوار کرتی ہے تو اس کیفیت کو قرآن توبہ کے لفظ سے تعبیر کرتا ہے اور توبہ ہی ہر طرح کے فتنہ و فساد اور خوف و دہشت سے محفوظ ہونے کا حقیقی علاج ہے۔

                حضور قلب کے ساتھ خدا کو یاد کیجئے، دل و دماغ، احساسات، جذبات، افکار و خیالات ہر چیز سے پوری طرح خدا کی طرف رجوع ہو کر یکسوئی اور دھیان کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم کیجئے اور ساری زندگی کو تعلق اللہ کا نمونہ بنایئے۔

                حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک سوکھی ٹہنی کو زور زور سے ہلایا، سب پتّے ٹہنی ہلانے سے جھڑ گئے۔ پھر آپﷺ نے فرمایا۔ صلوٰۃ قائم کرنے والوں کے گناہ اسی طرح جھڑ جاتے ہیں جس طرح اس سوکھی ٹہنی کے پتّے جھڑ گئے اور اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے قرآن کی یہ آیت تلاوت فرمائی:

                ’’اور نماز قائم کرو دن کے دونوں کناروں پر اور کچھ رات گئے اور بلاشبہ عمل خیر برائیوں کو مٹا دیتا ہے۔ یہ نصیحت ہے نصیحت حاصل کرنے والوں کے لئے۔‘‘

                اللہ تعالیٰ کے ساتھ ربط قائم ہو جانے سے انسان کا دل مطمئن ہو جاتا ہے اور اس کے اوپر سکون کی بارش برستی رہتی ہے۔ روحانیت میں قیام صلوٰۃ کا ترجمہ ربط قائم کرنا ہے یعنی اپنے اللہ سے ہر حال اور ہر حرکت میں تعلق اور ربط قائم رکھا جائے۔ نماز کے ذریعے خدا سے قربت حاصل کیجئے۔ بندہ اپنے رب سے سب سے زیادہ قریب اس وقت ہوتا ہے جب وہ اس کے حضور سجدہ کرتا ہے۔


                دشمنوں کی فتنہ انگیزی اور ظلم و ستم سے گھبرا کر، بے ہمت، بزدل اور پریشان ہو کر، بے رحموں کے سامنے سرنگوں ہو کر اپنے قومی وقار کو داغدار کرنا، دراصل احساس کمتری اور خود کو ذلیل کرنے کی علامت ہے، اس کمزوری کا کھوج لگایئے کہ آپ کے دشمن میں آ پ پر ستم ڈھانے اور آپ کے ملی تشخص کو پائمال کرنے کی جرأت کیوں ہوئی۔

                حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کی دو وجہیں بتائی ہیں:

                ۱۔ مسلمان دنیا سے محبت کرنے لگیں گے۔

                ۲۔ موت اُن کے اوپر خوف بن کر چھا جائے گی۔

                مسلمان کی تعریف یہ ہے کہ حالات کیسے بھی لرزہ خیز ہوں، وہ حق کی حمایت میں کبھی کوتاہی نہیں کرتا۔ شدید آزمائش میں بھی حق کا دامن نہیں چھوڑتا۔ کوئی موت سے ڈرائے تو وہ مسکرا دیتا ہے اور شہادت کا موقع آئے تو شوق و جذبے کے ساتھ اس کا استقبال کرتا ہے۔

                ان اجتماعی امراض کے خلاف برابر جہاد کرتے رہیئے جن سے سوسائٹی میںخوف و دہشت کی گھٹائیں چھا جاتی ہیں اور پھر دشمنوں کے تسلط سے قوم بے بس ہو کر رہ جاتی ہے۔

                حضرت عبداللہ ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ جس قوم میں خیانت کا بازار گرم ہو جائے گا خدا اس قوم کے دلوں میں دشمن کا خوف اور دہشت بٹھا دے گا۔ جس معاشرے میں ناپ تول میں کمی اور ملاوٹ کا رواج عام ہو جاتا ہے وہ ضرور قحط کا شکار ہو گی اور جہاں ناحق فیصلے ہوں گے وہاں لازماً خونریزی ہو گی۔ جو قوم بھی بدعہدی کرے گی اس پر بہرحال دشمن کا تسلط ہو کر رہے گا۔

                خوف و دہشت کا غلبہ ہو جائے تو اصلاح نفس کے ساتھ ساتھ یہ دعا پڑھئے انشاء اللہ ڈر اور خوف سے نجات مل جائے گی اور اطمینان قلب نصیب ہو گا۔

                ایک شخص حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا۔ یا رسول اللہﷺ! مجھ پر دہشت طاری رہتی ہے۔ آپﷺ نے فرمایا۔ یہ دعا پڑھو۔اس نے اس دعا کا ورد کیا۔ خدا نے اس کے دل سے دہشت دور کر دی۔

                سبحان اللہ الملک القدوس رب الملائکۃ والروح جللت السموات والارض بالعزۃ والجبروت

                ترجمہ:’’ پاک و برتر ہے اللہ، بادشاہ حقیقی، عیبوں سے پاک، اے فرشتوں اور جبرئیل کے پروردگار! تیرا ہی اقتدار اور دبدبہ آسمانوں اور زمین پر چھایا ہوا ہے۔‘‘

                اگر خدانخواستہ کسی خطہ میں مسلمان قوم دشمن کے نرغے میں پھنس جائے تو ہر نماز کے بعد یہ دعا پڑھنی چاہئے۔

                اللّٰھم استرعوراتنا وامن روعاتنا

                ترجمہ:’’خدایا! تو ہماری عزت و آبرو کی حفاظت کر اور خوف و ہراس سے امن عطا فرما۔

Topics


نورنبوت نور الٰہی-V1

خواجہ شمس الدین عظیمی

زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور لازوال عیش ہے۔