Topics
نبی مکرم علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد عالی
مقام ہے:
’’تین
باتیں ہلاکت میں مبتلا کر دیتی ہیں۔
۱۔ ایسی خواہش جس کا
انسان غلام بن کر رہ جائے۔
۲۔ ایسی حرص جس کو پیشوا
مان کر آدمی اس کی پیروی کرنے لگے۔
۳۔ خود پسندی……اور یہ
بیماری سب سے زیادہ خطرناک ہے۔‘‘
احتساب
ایک ایسا عمل ہے جو تمام فاسد مادوں سے انسان کو پاک کر دیتا ہے۔ قوم میں توانائی اور
زندگی کی روح پھونک دیتا ہے۔ اچھا دوست وہ ہے جو دوستوں کے احتساب پر خوش ہو اور اپنی
اصلاح کی کوشش کرے۔ لیکن ساتھ ہی یہ عمل اختیار کرنا بھی ضروری ہے کہ اگر دوستوں کے
دامن پر دھبے نظر آئیں تو ان کا اظہار اس طرح نہ کیا جائے کہ دوست کے دل پر میل آ
جائے۔ داغ دھبوں کو دھونے کی حکیمانہ تدبیریں بہترین دوستی ہے۔ جہاں آپ دوسروں کی
اصلاح کی کوشش کرتے ہیں وہاں اپنے دوستوں کو یہ موقع بھی دیجئے کہ وہ آپ کے اندر اٹھتے
ہوئے تعفن اور کثافت کو آپ کے اوپر نمایاں کریں۔ اور جب وہ یہ تلخ فریضہ ادا کریں
تو انتہائی عالیٰ ظرفی، خوش دلی اور احسان مندی سے ان کی تنقید کا استقبال کیجئے اور
ان کے اخلاص و کرم کا شکریہ ادا کیجئے۔ رسول برحق صلی اللہ علیہ و سلم نے اس مثالی
دوستی کو آئینے سے تشبیہہ دی ہے۔
’’تم
میں سے ہر ایک اپنے بھائی کا آئینہ ہے پس اگر وہ اپنے بھائی میں کوئی خرابی دیکھے
تو اسے دور کر دے۔‘‘ (حدیث)
روحانی
قانون کے تحت ہر آدمی ایک آئینہ ہے۔ آئینہ کی شان یہ ہے کہ جب آدمی آئینہ کے سامنے
کھڑا ہوتا ہے تو آئینہ تمام داغ دھبے اپنے اندر جذب کر کے نظر کے سامنے لے آتا ہے
اور جب آدمی آئینہ کے سامنے سے ہٹ جاتا ہے تو آئینہ اپنے اندر جذب کئے ہوئے یہ دھبے
یکسر نظر انداز کر دیتا ہے۔ جس طرح آئینہ فراخ حوصلہ ہے آپ بھی اسی طرح اپنے دوست
کے عیوب اس وقت واضح کریں جب وہ خود کو تنقید کے لئے آپ کے سامنے پیش کر دے اور فراخ
دلی سے تنقید و احتساب کا موقع دے۔ نصیحت کرنے میں ہمیشہ نرمی اور خوش اخلاقی کا مظاہرہ
کیجئے۔ اگر آپ یہ محسوس کر لیں کہ اس کا ذہن تنقید برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہے
تو اپنی بات کو کسی اور موقع کے لئے اٹھا رکھیں۔ اس کی غیر موجودگی میں آپ کی زبان
پر کوئی ایسا لفظ نہ آئے جس سے اس کے عیب کی طرف اشارہ ہوتا ہو۔ اس لئے کہ یہ غیبت
ہے اور غیبت سے نفرت پیدا ہوتی ہے۔ دوست کی تمام زندگی میں جو عیوب آپ کے سامنے آئیں
صرف ان ہی کی نشاندہی کیجئے۔ پوشیدہ عیبوں کے تجسس اور ٹوہ میں نہ لگیئے۔ پوشیدہ عیبوں
کو کریدنا بدترین، تباہ کن اور اخلاق سوز عیب ہے۔
نبی
کریم صلی اللہ علیہ و سلم ایک بار منبر پر تشریف فرما ہوئے اور بلند آواز میں حاضرین
مجلس کو تنبیہہ فرمائی:
’’مسلمانوں
کے عیوب کے پیچھے نہ پڑو۔ جو شخص اپنے مسلمان بھائیوں کے پوشیدہ عیوب کے درپے ہوتا
ہے تو پھر خدا اس کے چھپے ہوئے عیوب کو طشت ازبام کر دیتا ہے اور جس کے عیب افشا کرنے
پر خدا متوجہ ہو جائے تو اس کو رسوا کر کے ہی چھوڑتا ہے اگرچہ وہ اپنے گھر کے اندر
گھس کر ہی بیٹھ جائے۔‘‘
محبوب
پروردگار، باعث تخلیق کائنات، حضور رحمت اللعالمینﷺ کا ارشاد ہے:
’’یہ
قلوب زنگ آلود ہو جاتے ہیں، جس طرح لوہا زنگ آلود ہو جاتا ہے جب اس پر پانی پڑتا
ہے۔‘‘
پوچھا
گیا۔ یا رسول اللہﷺ! پھر دلوں کے زنگ کو دور کرنے والی چیز کیا ہے؟‘‘
فرمایا:
’’دل
کا زنگ اس طرح دور ہوتا ہے کہ آدمی موت کو کثرت سے یاد کرے اور دوسرے یہ کہ قرآن
کی تلاوت کرے۔‘‘
نبی
مکرمﷺ کا ارشاد ہے:
’’ان
لوگوں کی طرف دیکھو جو تم سے مال و دولت میں اور دنیاوی جاہ و مرتبے میں کم ہیں۔ اور
ان لوگوں کی طرف نہ دیکھو جو تم سے مال و دولت میں اور دنیاوی ساز و سامان میں بڑھے
ہوئے ہیں۔ تا کہ جو نعمتیں تمہیں اس وقت ملی ہوئی ہیں وہ تمہاری نگاہ میں حقیر نہ ہوں۔‘‘
اس
حدیث مبارکہ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ دنیاوی جاہ و مرتبہ میں کم لوگوں کی طرف دیکھنے
سے ہمارے اندر شکر کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔
نبی
برحق صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے:
’’میں
عیش و سہولت کی زندگی کیسے گزاروں، جبکہ اسرافیل صُور منہ میں لئے، کان لگائے، سر جھکائے
انتظار کر رہے ہیں کہ کب صور پھونکنے کا حکم ہوتا ہے۔‘‘
میرے
دوستو! عیش کوشی سے بچے رہو اور ایک ایسے سپاہی کی طرح زندگی کی ڈیوٹی انجام دیتے رہو
جو کسی وقت بھی اپنی ڈیوٹی سے غافل نہیں ہوتا۔
مسلمان
کا کردار یہ ہے کہ وہ عصبیت، تنگ نظری اور دھڑے بندی سے دور رہتا ہے۔ کشادہ دلی اور
خوش اخلاقی سے ہر ایک سے تعاون کرتا ہے اور جو لوگ بھی مخلصانہ طرزوں میں صراط مستقیم
پر گامزن ہو کر اللہ کی مخلوق کی خدمت کرتے ہیں، ان کے ساتھ خیر خواہی اور اخلاص کا
برتائو کرتا ہے۔ باہمی منافرت، کشیدگی، بغض و عناد اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے
عمل سے خود کو محفوظ رکھتا ہے۔
نیک
اور پاکیزہ نفس لوگ وہ ہیں جو دل کی گہرائی سے اپنی قوتوں اور صلاحیتوں کو خدا کی راہ
میں قربان کر دیتے ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جو اس عارضی زندگی میں خدا کے دین کی کچھ
خدمت کر جاتے ہیں۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ
ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور
مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی
اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان
کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو
اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں
تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ
باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب
سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور
لازوال عیش ہے۔