Topics
اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتے ہیں:
زینت
دی گئی ہے واسطے لوگوں کے (یعنی ان کو بھلی معلوم ہوتی ہیں) دنیا کی مرغوب چیزیں (مثلاً)
بیبیاں اور بیٹے اور سونے اور چاندی کے بڑے بڑے ڈھیر اور نشان کئے ہوئے عمدہ عمدہ گھوڑے
اور مویشی اور کھیتی (حالانکہ) یہ دنیا کی زندگی کے (چند روزہ) فائدے ہیں۔ اور ہمیشہ
کا اچھا ٹھکانہ تو اللہ ہی کے ہاں ہے۔
(اے
محمد ان سے) کہہ دے کہ میں تم کو ان (دنیاوی چند روزہ فائدوں) سے بہت بہتر چیز نہ بتا
دوں (وہ یہ ہے) کہ جن لوگوں نے پرہیز گاری اختیار کی ان کیلئے پروردگار کے ہاں (جنت
کے) باغ ہیں۔ جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں( اور وہ ) ان میں ہمیشہ رہیں گے اور علاوہ
ان باغوں کے ان کیلئے وہاں بیبیاں ہیں۔ ستھری (و پاکیزہ) اور سب سے بڑھ کر جو ان کیلئے
انعام ہے وہ خوشنودی ہے اللہ کی۔ اور اللہ بندوں (کے نیک و بد) کو دیکھتا ہے۔
(یہ)
وہ لوگ ہیں جو کہتے (رہتے) ہیں کہ اے ہمارے پروردگار ہم (تجھ پر) ایمان لائے تو ہم
کو ہمارے گناہ معاف فرما۔ اور ہم کو عذاب دوزخ سے بچا۔
(زبانی
اعتراف پر ہی اکتفا نہیں کرتے بلکہ ان اعترافات کے ساتھ) صبر بھی کرتے ہیں (ان تکالیف
پر جو انہیں پہنچتی ہیں) اور سچے ہیں اور(خدا کے) فرماں بردار بندے ہیں۔ اور خدا کی
راہ میں خرچ کرتے ہیں۔ اور پچھلی رات میں (اللہ سے) بخشش مانگتے ہیں۔
خود
اللہ نے اس بات کی شہادت دی کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور فرشتوں نے اور اہل علم
نے بھی گواہی دی (اور اس معبود کی شان کا کیا ٹھکانہ) جو انصاف کے ساتھ کارخانہ عالم
کو سنبھالے ہوئے ہے۔ اس غالب حکمت والے کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں۔
دین(حق
تو) خدا کے نزدیک یہی اسلام ہے۔ اور اہل کتاب نے جو (دین حق سے) مخالفت کی تو (حق بات)
معلوم ہونے کے بعد کی (اور) آپس کی ضد سے کی اور جو شخص خدا کی آیتوں سے منکر ہوا
تو اللہ کو (اس سے) حساب لینے (اور اس کی نافرمانی کی سزا دینے) میں کچھ دیر نہیں لگتی۔
پس
(اے محمد وہ لوگ) اگر اس پر بھی تجھ سے حجت کریں (تو ان سے) کہہ دو کہ میں نے تو خدا
کے آگے اپنا سر تسلیم خم کر دیا۔ اور جو لوگ میرے پیرو ہیں (ان کا بھی یہی حال ہے)
اور اہل کتاب اور ان پڑھوں سے کہہ دے کہ تم بھی اسلام لاتے ہو (یا نہیں) پس اگر اسلام
لے آئیں تو بیشک راہ راست پر آ گئے اور اگر منہ موڑیں تو تجھ سے باز پرس نہیں۔ کیونکہ
تجھ پر تو حکم الٰہی کا ان تک پہنچا دینے کا ہی ذمہ ہے (اور بس) اللہ (اپنے) بندوں
کے حال کو (خوب) دیکھ رہا ہے۔
(القرآن)
اللہ
رب العالمین کے محبوب رحمت اللعالمین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم
کا ارشاد ہے کہ میں عظیم خدا سے جو عرش عظیم کا رب ہے سوال کرتا ہوں کہ وہ تجھے شفا
بخشے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا یہ دعا سات بار پڑھنے سے مریض شفایاب
ہو جاتا ہے مگر یہ کہ اس کا وقت پورا ہو گیا ہو……یعنی موت کا کوئی علاج نہیں۔
خدایا
اس تکلیف کو دور فرما۔ اے انسانوں کے رب اس کو شفا دے۔ تو ہی شفا دینے والا ہے، تیرے
سوا کسی سے شفا کی توقع نہیں……ایسی شفا بخش دے کہ بیماری کا نام و نشان باقی نہ رہے۔
اور
جب زبان سے کچھ کہو تو انصاف کی بات کہو چاہے وہ تمہارا رشتہ دار ہی ہو۔
رزق
کی تلاش اور حلال کمائی کیلئے صبح سویرے ہی چلے جایا کرو کیونکہ صبح کے کاموں میں برکت
اور کشادگی ہوتی ہے۔
خدا
اس شخص پر رحم فرماتا ہے جو خرید و فروخت اور تقاضا کرنے میں نرمی اور خوش اخلاقی سے
کام لیتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ جس شخص کو خواہش ہو
کہ خدا اس کو قیامت کے روز غم اور گھٹن سے بچائے تو اسے چاہئے کہ تنگدست قرض دار کو
مہلت دے یا قرض کا بوجھ اس کے اوپر سے اتار دے۔
میری
مثال اس شخص کی سی ہے جس نے آگ جلائی اور جب آس پاس کا ماحول آگ کی روشنی سے منور
ہو گیا تو کیڑے پتنگے اس پر گرنے لگے اور وہ شخص پوری قوت سے ان کیڑوں پتنگوں کو روک
رہا ہے۔ لیکن پتنگے اس کی کوشش کو ناکام بنا دینا چاہتے ہیں۔ اور آگ میں گر پڑنا چاہتے
ہیں……اس طرح میں بھی تمہیں کمر سے پکڑ پکڑ کر آگ سے روک رہا ہوں اور تم ہو کہ آگ
میں گرنا چاہتے ہو۔
نبی
مکرم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
جب
بنی اسرائیل خدا کی نافرمانیوں کے کام کرنے لگے تو ان کے علماء نے ان کو روکا لیکن
وہ نہیں رکے تو علماء نے ان کا بائیکاٹ کرنے کی بجائے ان کی مجلسوں میں بیٹھنا شروع
کر دیا۔ اور ان کے ساتھ کھانے پینے لگے۔ جب ایسا ہوا تو خدا نے ان سب کے دل ایک جیسے
کر دیئے اور پھر حضرت دائود اور حضرت عیسیٰ ابن مریم کی زبان سے خدا نے ان پر لعنت
کی۔ یہ اس لئے کہ انہوں نے نافرمانی کی راہ اختیار کی اور اس میں بڑھتے چلے گئے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ
ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور
مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی
اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان
کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو
اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں
تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ
باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب
سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور
لازوال عیش ہے۔