Topics

ستمبر 1984؁ء۔نیکی اور بدی کی تصویر

ایک مصور کو خیال آیا کہ وہ نیکی کی تصویر تیار کرے چنانچہ وہ شہروں اور دیہاتوں میں برسوں گھومتا رہا۔ آخر ایک روز اسے ایک نہایت حسین بچہ نظر آیا جس کا رنگ گورا تھا، آنکھیں موٹی اور حیا دار تھیں۔ جسم سڈول اور ملائم، پیشانی روشن اور فراخ، دست و پا نرم و نازک تھے۔ وہ فرط مسرت سے چلا اٹھا۔ مل گئی، نیکی کی تصویر مل گئی۔ چنانچہ اس نے اس بچے کی تصویر اپنے اسٹوڈیو میں لٹکا دی اور نیچے لکھ دیا۔ ’’نیکی کی تصویر‘‘۔

                ایک عرصہ کے بعد اسے خیال آیا کہ بدی کی تصویر بھی بنانی چاہئے چنانچہ اس مقصد کے لئے وہ دنیا میں نکل پڑا۔ بیس برس تک گھومتا رہا۔ لاکھوں کروڑوں چہرے دیکھے، بد سے بدتر لیکن اس کی تسلی نہ ہوئی۔ آخر ایک دن اسے ایک عجیب چہرہ نظر آیا کہ اسے دیکھتے ہی اس کا دل نفرت و حقارت کے جذبات سے بھر گیا۔ اب وہ پھر چلا اٹھا۔ مل گئی، مل گئی بدی کی تصویر۔

                اور یہ تصویر بھی اس کے اسٹوڈیو کی زینب بن گئی۔ ارباب ذوق اس کے اسٹوڈیو میں آتے جاتے رہے۔ ایک دن ایک شخص آیا اور ان دونوں تصاویر کے سامنے تصویر حیرت بن کر کھڑا ہو گیا اور پھر اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور مصور سے یہ کہہ کر چلا گیا کہ یہ دونوں تصاویر میری ہیں۔

                اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا ہے:

                ’’شر اور خیر کا ذرہ ذرہ تولا  جاتا ہے۔‘‘

                قرآن پاک میں یہ بھی ارشاد ہے:

                ’’آپﷺ کیا سمجھے علیین (نیکو کاروں کا مقام) کیا ہے اور آپ کیا سمجھے سجیین (بدکاروں کا مقام) کیا ہے۔ یہ ایک لکھی ہوئی کتاب (فلم) ہے، انسان جو کچھ بھی کرتا ہے، اس کی زندگی کا ہر عمل، زندگی کی ہر حرکت ریکارڈ ہو جاتی ہے یعنی بندہ جو کچھ کر رہا ہے، ساتھ ساتھ اس کی فلم بھی بن رہی ہے۔

                اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

                ہم نیکو کاروں کو نہ صرف ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیں گے بلکہ کچھ زیادہ ہی عنایت کریں گے، ان کے چہروں کو ذلت اور سیاہی سے محفوظ رکھیں گے اور جنت کی بہاروں میں انہیں دائمی مسکن عطا کریں گے۔ دوسری طرف ہم بدکاروں کو ان کے اعمال کے مطابق سزا دیں گے۔ ان کے چہروں پر ذلت برسائیں گے۔ انہیں ہماری قاہرانہ گرفت سے چھڑانے والا کوئی نہ ہو گا۔ ان کے منہ اس قدر سیاہ ہو جائیں گے گویا شب تاریک کا کوئی ٹکڑا کاٹ کر ان کے رخ پر چپکا دیا گیا ہو۔ یہ لوگ سدا جہنم میں رہیں گے۔ ‘‘  (سورہ یونس)

                ان آیات پر تفکر کریں تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ انسان کے اچھے اور برے اعمال کا عکس چہرہ میں منتقل ہوتا رہتا ہے اور جو بندہ جس قسم کے کام کرتا ہے اسی مناسبت سے اس کے چہرے پر تاثرات مرقوم ہوتے رہتے ہیں۔

                نفسیات داں یہ بات جانتے ہیں کہ ہر انسان روشنیوں سے مرکب ہے اور روشنی کی یہ لہریں انسان کی ہستی سے غیر محسوس طریقے سے نکلتی رہتی ہیں۔ کوئی چہرہ ہمارے سامنے ایسا آتا ہے کہ ہم اس چہرہ کو دیکھ کر خوش ہو جاتے ہیں اور جس ہستی کا یہ چہرہ ہے ہم اس کے گرویدہ ہو جاتے ہیں۔ کوئی چہرہ ہمارے سامنے ایسا بھی آتا ہے کہ ہم اس چہرے میں سے نکلنے والی لہروں سے بیزار ہو جاتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ جلد از جلد وہ چہرہ ہماری نظروں سے دور ہو جائے۔

                جن لوگوں کے دل اللہ کے نور سے معمور ہوتے ہیں اور جن لوگوں کے دماغ میں خلوص، ایثار، محبت، پاکیزگی اور خدمت خلق کا جذبہ ہوتا ہے ایسے لوگوں کے چہرے بھی خوش نما، معصوم اور پاکیزہ ہوتے ہیں۔ ان چہروں میں ایسی مقناطیسیت ہوتی ہے کہ ہر شخص قریب ہونا چاہتا ہے، اس کے برعکس ایسے لوگ جو احساس گناہ اور اضطراب میں مبتلا ہیں، ان کے چہروں پر خشونت، خشکی، یبوست، بے آہنگی اور کراہت کے تاثرات پیدا ہو جاتے ہیں اور یہ تاثرات دوسرے آدمی کے دل دور رہنے کا تقاضہ پیدا کرتے ہیں۔

                آیئے! ہم دیکھیں کہ ہماری تصویر کیسی ہے؟

                سب کاموں سے فارغ ہونے کے بعد رات کو سونے سے پہلے قد آدم آئینہ کے سامنے کھڑے ہو جایئے۔ چند منٹ آنکھیں بند کر کے یہ تصور کیجئے کہ میری زندگی کے پورے اعمال کا ریکارڈ میرے اندر موجود ہے اور میں اس ریکارڈ یا اپنے اندر موجود فلم کو دیکھ رہا ہوں۔ آنکھیں کھول لیجے اور آئینہ کے اوپر بھرپور نگاہ ڈالئے۔ اگر آپ کا چہرہ روشن ہے، چہرہ پُرنور ہے، معصومیت ہے اور چہرہ کے خدوخال میں مسکراہٹ کی لہریں دور کر رہی ہیں تو آپ بلاشبہ نیکی کی تصویر ہیں۔ اور اگر آپ کا چہرہ سوگوار ہے، خشک ہے، چہرے پر نفرت و حقارت کے جذبات موجود ہیں، کبر و نخوت کے آثار ہیں اور آپ کا چہرہ خود آپ کو بُرا لگتا ہے تو آپ برائی کی تصویر ہیں۔

                یاد رکھئے!

                قانون فطرت یہ ہے کہ انسان کے ہر عمل کی فلم بنتی رہتی ہے اور ہر آدمی کی اپنی اس فلم کے لئے اس کا اپنا چہرہ اسکرین ہے۔ کراماً کاتبین کی بنائی ہوئی فلم انسانی چہرے پر چلتی رہتی ہے۔ کیا آپ  نے نہیں دیکھا ایک پریشان حال، مصیبت کا مارا اور غم کی چکی میں پسنے والے آدمی کے چہرے پر پریشانی اور غم و آلام کے پورے پورے تاثرات موجود ہوتے ہیں ۔ یقیناً آپ نے ایسے آدمی بھی دیکھے ہیں کہ ایک آدمی خوش باش لوگوں کے ہجوم میں داخل ہوتا ہے تو ساری محفل افسردہ اور پراگندہ دل ہو جاتی ہے اور یقیناً اس دنیا میں پاکیزہ نفس حضرات بھی موجود ہیں کہ ان کے وجود سے خوشی، مسرت اور سکون قلب کا بھرم پایا جاتا ہے۔

                اللہ تعالیٰ نے سورۂ آل عمران میں فرمایا ہے:

                ’’وہ دن آ کر رہے گا جب بعض چہرے نورانی ہو جائیں گے، بعض تاریک سیاہ رُو۔ لوگوں سے کہو کہ تم نے اللہ کو تسلیم کرنے کے بعد اس کے احکام سے انحراف کیا۔ اب اس کی سزا بھگتو۔ باقی رہے وہ لوگ جن کے چہرے نورانی ہیں تو یہ مستقل اللہ کی رحمت میں رہیں گے۔

Topics


نورنبوت نور الٰہی-V1

خواجہ شمس الدین عظیمی

زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور لازوال عیش ہے۔