Topics

ستمبر 1983؁ء۔بے نیازی اور مسلمان کے حقوق

قیامت کے روز اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔ اے آدم کے بیٹے! میں بیمار پڑا تو نے میری مزاج پرسی نہیں کی، میری عیادت نہیں کی۔

                بندہ کہے گا۔ پروردگار عالم! آپ ساری کائنات کے رب ہیں بھلا میں آپ کی عیادت کیسے کرتا؟

                اللہ فرمائے گا۔ میرا فلاں بندہ بیمار پڑا تو اس کی عیادت کو نہیں گیا۔ اگر تو اس کی مزاج پرسی کے لئے جاتا تو مجھے پاتا۔

                اللہ رب کائنات کے دوست اللہ کے پیغام رساں نور اول رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے:

                ’’ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حقوق ہیں۔‘‘

                لوگوں نے پوچھا۔ یا رسول اللہﷺ! وہ کون کون سے حقوق ہیں؟

                آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ ’’جب تم مسلمان بھائی سے ملو تو اس کو سلام کرو۔ جب وہ تمہیں دعوت کے لئے بلائے تو اس کی دعوت قبول کرو۔ جب وہ تم سے مشورے کا طالب ہو تو اس کی خیر خواہی کرو اور نیک مشورہ دو۔ جب اس کو چھینک آئے اور وہ الحمداللہ کہے تو اس کے جواب میں کہو یرحمک اللہ۔ جب وہ بیمار ہو جائے تو اس کی عیادت کرو اور جب وہ مر جائے تو اس کے جنازے کے ساتھ جائو۔‘‘

                حضرت عائشہؓ بنت سعدؓ بیان کرتی ہیں کہ میرے والد نے اپنا قصہ سنایا کہ میں ایک بار مکے میں سخت بیمار پڑا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم تشریف لائے تو میں نے پوچھا۔ یا رسول اللہﷺ! میں کافی مال چھوڑ رہا ہوں اور میری صرف ایک ہی بچی ہے۔ کیا میں اپنے مال سے دو تہائی کی وصیت کر جائوں اور ایک تہائی بچی کے لئے چھوڑ جائوں؟

                فرمایا۔ ’’نہیں۔‘‘

                میں نے عرض کیا۔ ’’یا رسول اللہﷺ! پھر ایک تہائی کی وصیت کر جائوں؟‘‘

                فرمایا۔ ’’ہاں۔ ایک تہائی کی وصیت کر جائو اور ایک تہائی بہت ہے۔‘‘

                اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنا دست مبارک میری پیشانی پر رکھا اور منہ پر اور پیٹ پر پھیرا اور دعا فرمائی۔ اے خدا! سعد کو شفاء عطا فرما اور اس کی ہجرت کو مکمل فرما دے۔ اس کے بعد سے آج تک جب کبھی خیال آتا ہے تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے دست مبارک کی ٹھنڈک اپنے جگر پر محسوس کرتا ہوں۔


                اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ و سلم) آپ فرمادیجئے اللہ یکتا ہے، اللہ کسی سے کوئی احتیاج نہیں رکھتا، نہ وہ کسی کی اولاد ہے اور نہ وہ کسی کا باپ ہے، اس کا کوئی خاندان بھی نہیں ہے۔

                اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی  پانچ صفات کا تذکرہ فرمایا ہے:

                وہ یکتا ہے۔ بے نیاز ہے۔ ماں باپ یا اولاد کے رشتے سے مبرا ہے۔ اس کا کوئی کفو، خاندان، کنبہ یا برادری نہیں ہے۔

                خالق کی تعریف کے برعکس…۱۔ مخلوق یکتا نہیں ہوتی، مخلوق کا کثرت میں ہونا ضروری ہے۔ ۲مخلوق ہونے کی تعریف ہی یہ ہے کہ وہ ہر ہر قدم پر محتاج ہوتی ہے۔ ۳ مخلوق کا اگر باپ نہ ہو تو مخلوق کا وجود ہی زیر بحث نہیں آتا۔ ۴ مخلوق کی پیدائش میں بنیادی عمل ماں باپ کا ہوتا ہے۔ ۵ مخلوق کی پہچان کا اصل ذریعہ اس کا خاندان ہے۔ دراصل ہر نوع ایک پورا کنبہ اور خاندان ہے۔

                آیئے! تلاش کریں کہ اللہ کی صفات میں ہم بحیثیت مخلوق کس کس رشتہ سے وابستہ ہیں۔

                اللہ ایک ہے، مخلوق کثرت ہے۔ اللہ کسی کی اولاد نہیں ہے، مخلوق اولاد ہوتی ہے۔ مخلوق باپ یا ماں ہوتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ خاندانی جھمیلوں سے پاک اور مبرا ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی بیان کردہ ان پانچ صفات میں سے صرف ایک صفت ایسی ہے کہ مخلوق تمام مخلوق سے رشتے منقطع کر کے ہمہ تن متوجہ ہو کر اللہ کی صفت میں اپنا ذہن مرکوز کر سکتا ہے اور وہ صفت ہے بے نیازی کی صفت یعنی مخلوق اپنا ذہن دنیاوی تمام وسائل سے ہٹا کر اللہ کے ساتھ وابستہ کر لیتی ہے اور جب ایسا ہو جاتا ہے تو مخلوق کے اوپر یہ بات منکشف ہو جاتی ہے کہ ہمارا خالق و رازق اللہ اور صرف اللہ ہے۔

                اس یقین کے ساتھ زندگی گزارنے والے بندے جب زندگی میں جدوجہد اور کوشش کرتے ہیں تو کہتے اور سمجھتے ہیں کہ ہم یہ کوشش اور جدوجہد اس لئے نہیں کر رہے ہیں کہ کوشش کے نتائج ہمارے ارادوں کے تابع ہیں بلکہ اس لئے کوشش کرتے ہیں کہ اللہ چاہتا ہے کہ کائنات متحرک رہے۔ رنگ روپ میں بنی سنوری یہ کائنات اپنے محور پر گردش کرتی رہے، تاآنکہ اسے اپنی منزل مل جائے اور یہ کُن سے پہلے کے عالم میں داخل ہو جائے۔

Topics


نورنبوت نور الٰہی-V1

خواجہ شمس الدین عظیمی

زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور لازوال عیش ہے۔