Topics

دسمبر 2001؁۔اللہ کی رحمت

’’آپ فرما دیجئے کہ اللہ ہی کا فضل اور اس کی رحمت ہے۔ اس پر چاہئے کہ خوشی کریں‘‘۔

              (سورۂ یونس۔ آیت 58)

              خوشی انسان کے لئے ایک طبعی تقاضا اور فطری ضرورت ہے۔ اسلام یہ نہیں چاہتا کہ مسلمان مصنوعی وقار، غیر فطری سنجیدگی، مردہ دلی اور افسردگی سے قوم کے کردار کی کشش کو ختم کر دیں۔ اسلام چاہتا ہے کہ مسلمان بلند حوصلوں، نت نئے ولولوں اور نئی نئی امنگوں کے ساتھ تازہ دم رہ کر اپنا وقار بلند کریں۔

              عیدالفطر کا تہوار بھی مسلمانوں کے لئے خوشی کی نوید لے کر آتا ہے۔ خوش رہنا اور دوسروں کو خوش رکھنا مسلمان کا اخلاقی کردار ہے۔ کوئی بھی تہوار ہو اس موقع پر بھرپور خوشی کا اظہار کرنا ایک مسلمان پر فرض ہے۔ اسلام نہ صرف خوش رہنے اور خوشی منانے کی اجازت دیتا ہے بلکہ اس کو عین دین داری قرار دیتا ہے۔

              حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ عید کا دن تھا۔ کچھ کنیزیں بیٹھی اشعار گا رہی تھیں۔ نبی برحقﷺ بھی تشریف فرما تھے۔ اسی دوران حضرت ابوبکرؓ تشریف لے آئے اور بولے ’’نبی کے گھر میں یہ گانا بجانا کیسا؟‘‘

              نبی برحقﷺ نے فرمایا ’’ابوبکر رہنے دو۔ ہر قوم کے لئے تہوار کا ایک دن ہوتا ہے اور آج ہماری عید کا دن ہے‘‘۔

              ایک مرتبہ تہوار کے دن کچھ حبشی بازیگر کرتب دکھا رہے تھے۔ آپﷺ نے وہ کرتب خود بھی دیکھے اور حضرت عائشہؓ کو بھی دکھائے۔ آنحضرتﷺ نے ان بازیگروں کو شاباش بھی دی۔

              عید کے اس پُرمسرت موقع پر ایسے لوگوں کو ہرگز نظر انداز مت کیجئے جو کسی محرومی کا شکار ہیں یا کسی مشکل میں گرفتار ہیں۔

              ایک مرتبہ رسول اکرمﷺ عید الفطر کی نماز کے لئے تشریف لا رہے تھے۔ راستے میں بچے رسول اللہﷺ کی ٹانگوں سے لپٹ لپٹ کر اپنی خوشی کا اظہار کرتے۔

              آپﷺ کی نظر ایک بچے پر پڑی جو دوسروں سے الگ تھلگ کھڑا تھا۔ اس کے کپڑے بھی نئے نہیں تھے اور چہرے سے اداسی ٹپک رہی تھی۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام بچوں کو پیار کرتے کرتے اس بچے کی طرف گئے اور پوچھا’’ بیٹے تم اداس کیوں ہو؟‘‘

              بچے نے روتے ہوئے جواب دیا’’میں یتیم ہوں۔ میرے والد ایک جنگ میں شہید ہو گئے۔ والدہ نے دوسری شادی کر لی اور نئے ابو نے مجھے گھر سے نکال دیا‘‘۔ رسول اللہﷺ نے اس بچے کو گود میں اٹھا لیا اور اس کے دست شفقت پھیرتے ہوئے فرمایا:

              ’’پیارے بیٹے کیا تم یہ پسند کرو گے کہ محمد تمہارے والد ہوں، عائشہ تمہاری امی ہوں، حسن اور حسین تمہارے بھائی ہوں۔ عائشہ تمہیں نہلائیں، نئے کپڑے پہنائیں، خوشبو لگائیں اور میں تمہیں اپنی گود میں لے کر نماز عید کے لئے چلوں؟‘‘

              بچہ نے حیرت سے ساری بات سنی۔ نبی برحقﷺ بچے کو گود میں اٹھا کر گھر تشریف لائے اور نہلا دھلا کر اپنی گود میں نماز عید کے لئے لے گئے۔

              رسول رحمتﷺ نے عید کی خوشی میں غربائ، مساکین کا خیال رکھنے کی بھی تعلیم دی ہے اور غریبوں اور مسکینوں کو اس خوشی میں شریک کرنے کے لئے صدقۂ فطر کا حکم دیا تا کہ وہ نادار افراد جو اپنی ناداری کے باعث اس روزِ سعید کی خوشی نہیں منا سکتے وہ بھی خوشی منائیں۔

Topics


نورنبوت نور الٰہی-V1

خواجہ شمس الدین عظیمی

زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور لازوال عیش ہے۔