Topics

دسمبر 1994؁ء۔دین تو بس اسلام ہے

مسلمانو! خدا نے تمہارے لئے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا ہے جس کی وصیت اس نے نوحؑ کو کی تھی اور جس کی وحی اے رسولﷺ ہم نے آپ کی طرف بھیجی ہے اور جس کی ہدایت ہم ابراہیمؑ اور موسیٰ ؑ اور عیسیٰ ؑ کو دے چکے ہیں کہ اس دین کو قائم کرو اور اس میں تفرقہ نہ ڈالو۔ (الشوریٰ)

                تم خیر امت ہو جو سارے انسانوں کیلئے وجود میں لائی گئی ہے۔ تم بھلائی کا حکم دیتے اور برائی سے روکتے ہو اور خدا پر کامل ایمان رکھتے ہو۔ (آل عمران)

                اور جو کوئی اسلام کے سوا کسی دوسرے دین کو اختیار کرنا چاہے گا وہ دین اس کا ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور آخرت میں وہ ناکام و نامراد ہو گا۔ (آل عمران)

                ان الدین عندللہ الاسلام اور خدا کے نزدیک دین تو بس اسلام ہے۔ اسلام کی تعلیمات حاصل کر کے اپنے اندر بصیرت پیدا کیجئے۔ یقین رکھئے کدا کے نزدیک دین سلامتی اور راست بازی کا دین ہے۔ دین حق اسلام کو چھوڑ کر جو طریقہ بندگی بھی اختیار کیا جائے گا خدا کے ہاں اس کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے۔ اللہ رب العزت کے یہاں وہی دین صحیح دین ہے جو قرآن میں بالوضاحت بیان کر دیا گیا ہے اور جس کی عملی تفسیر رسول اللہ صلی للہ علیہ و سلم کی مبارک زندگی ہے۔

                دین اسلام کے نصب العین کی عظمت اور اہمیت کو ہمیشہ پیش نظر رکھ کر اس کے اصولوں پر قائم رہئے کہ یہی وہ عظیم کام ہے جس کیلئے خدا کی طرف سے ہمیشہ انبیاء آتے رہے ہیں۔ یہی وہ عطا ہے جو دونوں جہاں کی عظمت و سربلندی کا سرمایہ ہے۔

                جب تک آپ خود کو صراط مستقیم پر گامزن نہیں کریں گے ۔ آپ دوسروں پر اثر انداز نہیں ہو سکتے۔ پہلے خود کو اسلام میں پورا پورا داخل کیجئے۔ جو کچھ دنیا کے سامنے پیش کریں پہلے خود اس کی خوبصورت تصویر بن جایئے۔

                یاد رکھئے! جو لوگ اپنی تربیت و اصلاح سے غافل ہو کر دوسروں کی اصلاح و تربیت کی باتیں کرتے ہیں وہ خسر الدنیا الاٰخرۃ کے مصداق ہمیشہ تہی دامن رہتے ہیں۔ ان کی مثال ایسی ہے کہ اپنے جلتے ہوئے گھر سے بے فکر رہیں اور پانی کی بالٹیاں لئے ہوئے اس تلاش میں سرگرداں رہیں کہ کوئی جلتا ہوا گھر انہیں مل جائے اور وہ اس آگ پر پانی کی بالٹیاں انڈیل دیں۔

                ایسے لوگ دنیا میں بھی ناکام ہیں اور آخرت میں بھی ناکام رہیں گے۔ خدا کو یہ بات انتہائی درجہ ناگوار ہے کہ دوسروں کو نصیحت کرنے والے خود بے کل رہیں اور لوگوں کو اس عمل کی دعوت دیں جو خود نہ کرتے ہوں۔

                زبان و قلم، انفرادی زندگی، خانگی تعلقات، ازدواجی حالات، سماجی معاملات اور اپنی روحانی واردات و کیفیات سے ایسا ماحول تشکیل دیجئے جو لوگوں کیلئے مشعل راہ ہو اور سکون نا آشنا لوگ اس طرز زندگی میں جوق در جوق شامل ہوں۔ پاکیزہ کردار، ذہنی سکون اور روحانی قدروں سے اچھا سماج تشکیل پاتا ہے۔ متوازن قدروں سے تشکیل شدہ نظام کی بنیاد عدل و انصاف پر ہوتی ہے تو ایسی تہذیب وجود میں آتی ہے جس تہذیب پر قائم لوگ فرشتوں کے مسجود ہوتے ہیں اور وہ فی الارض خلیفہ کی حیثیت سے کائناتی سلطنتوں پر حکمرانی کرتے ہیں۔

Topics


نورنبوت نور الٰہی-V1

خواجہ شمس الدین عظیمی

زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور لازوال عیش ہے۔