Topics

جون1997؁ء۔قدرت کی نشانیوں پر غور

کیا ہم کبھی اس بات پر غور کرتے ہیں:

                ماں کے پیٹ میں نہ کوئی پھل دار درخت ہے اور نہ وہاں دودھ یا غلہ موجود ہے۔ بچہ ایک قانون، ایک ضابطہ، ایک اصول اور ایک نظام کے تحت پیٹ کی اندرونی کوٹھری میں توازن کے ساتھ لمحوں، منٹوں، گھنٹوں، دنوں اور مہینوں کے وقت کے تطابق کے ساتھ پرورش پاتا رہتا ہے۔ پیدا ہوتا ہے تو اس کی غذا کی کفالت کے لئے دو چشمے ابل پڑتے ہیں اور جب بچہ غذا کے معاملے میں خود کفالت کی طرف دو قدم آگے بڑھتا ہے تو وہ سوتے جن سے چشمہ ابل رہا تھا خشک ہو جاتے ہیں۔ وہ ماں جس کی ازلی خواہش بچہ کو سینے سے چمٹا کر دودھ پلانا تھی، اب بچہ کی غذا کا اہتمام دوسری طرح کرتی ہے۔ اور ستر مائوں سے زیادہ چاہنے والا اللہ ماں کی مامتا کو ٹھنڈا رکھنے کے لئے زمین کی کوکھ کو ماں بنا دیتا ہے اور زمین ہماری ماں بن کر ہمیں وہ تمام وسائل مہیا کرتی ہے جن کی ہمیں ضرورت ہے۔ یہ سب کیوں ہے؟ قدرت ہماری خدمت میں اس فیاضی اور دریا دلی سے کیوں مصروف و منہمک ہے؟

                قدرت چاہتی ہے کہ……

                ہم قدرت کی نشانیوں پر غور کر کے نیکوکاروں کی زندگی بسر کریں۔ اس لئے کہ نیکو کاری قدرت کی حسین ترین صنعت ہے۔ خدا چاہتا ہے کہ اس کی صنعت میں بدنمائی نہ ہو۔

                سورہ یونس میں ارشاد ہے:

                ’’ہم نیکو کاروں کو ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیں گے بلکہ کچھ زیادہ ہی عطا کریں گے۔ ان کے چہروں کو ذلت اور مسکنت کی سیاہی سے محفوظ رکھیں گے۔ اور جنت میں انہیں دائمی سکون حاصل ہو گا۔‘‘

                ’’اور بدکاروں کو ان کے اعمال کے مطابق سزا دی جائے گی۔ ان کے چہرے ذلت اور رسوائی کے تاثرات سے سیاہ پڑ جائیں گے اور ان کا مستقل ٹھکانہ دوزخ ہے۔‘‘

                نیکوکاری یہ ہے کہ بندہ اپنے خالق کو پہچان لے اور محروم القسمت لوگ وہ ہیں جو اپنے خالق کا عرفان نہیں کرتے۔ خالق کا عرفان حاصل کرنے کے لئے پہلے خود اپنی ذات کا عرفان ضروری ہے اور اپنی ذات کا عرفان یہ ہے کہ ہم اپنے اندر موجود اللہ کے نور کا مشاہدہ کریں۔

 

نورِ نبوت

                اولیاء اللہ کے دل ہدایت، خلوص، ایثار، محبت اور عشق کے چراغ ہیں۔ یہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے ایسے دوست ہیں جن کو اللہ اور اس کے رسولﷺ عزیز رکھتے ہیں، ان سے محبت کرتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد گرامی ہے کہ:

                ’’اللہ کے دوستوں کا دشمن خدا اور رسولﷺ کا دشمن ہے۔‘‘

                فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے:

                ’’جو شخص کہ دشمنی رکھے خدا کے کسی دوست کے ساتھ، بے شک اس نے اللہ کے ساتھ لڑائی کا ارادہ کیا۔ تحقیق اللہ دوست رکھتا ہے ایسے برگزیدہ پوشیدہ حال بندوں کو جو نظروں سے اوجھل ہوں، ان کا تذکرہ نہ کیا جائے اور سامنے ہوں تو مخاطب نہ ہوا جائے، نہ انہیں پاس بٹھایا جائے حالانکہ ان کے دل ہدایت کے چراغ ہیں۔‘‘

                دوسری جگہ ارشاد عالی ہے:

                ’’مجھ کو اپنے فقیروں میں ڈھونڈو، بس ان ہی کی بدولت روزی اور نصرت نصیب ہوتی ہے۔‘‘ (یعنی فقیر میرے دوست ہیں، میں ان کے پاس بیٹھتا ہوں اور وہ ایسے ہیں کہ ان کے طفیل تم کو رزق یا نصرت ملتی ہے)۔

                اہل روز اُمرائے عرب میں سے کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا……’’ہمارا دل چاہتا ہے کہ ہم آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوں لیکن یہ شکستہ حال اصحاب صفہ آپﷺ کے ہم نشیں ہیں۔ اگر ہمیں تنہائی فراہم کر دی جائے تو ہم آپﷺ سے دینی مسائل حاصل کر لیا کریں گے۔‘‘

                اللہ تعالیٰ دانا و بینا، علیم وخبیر ہے۔ جیسے ہی یہ بات ان کے منہ سے نکلی، اللہ تعالیٰ نے فرمایا……’’اے محمد! ان لوگوں کو اپنے سے دور نہ کریں جو اپنے رب کو صبح و شام پکارتے ہیں اور اس کی دید کے متمنی رہتے ہیں۔ آپ پر نہیں ہے ان کے حساب میں سے کچھ اور نہ آپ کے حساب میں سے ان پر ہے کچھ کہ آپ ان کو دور کرنے لگیں۔ پس ہو جائیں آپ بے انصافوں میں سے۔‘‘ (قرآن)

                غور طلب بات یہ ہے کہ اگر ان فقراء کو تھوڑی دیر کے لئے ہٹا دیا جاتا تو عرب کے بڑے بڑے امراء مسلمان ہو جاتے لیکن اللہ کی غیرت نے اس کو پسند نہیں کیا کہ اس کے دوستوں کو کوئی حقارت سے دیکھے۔

Topics


نورنبوت نور الٰہی-V1

خواجہ شمس الدین عظیمی

زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور لازوال عیش ہے۔