Topics
اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیبﷺ سے ارشاد فرمایا
ہے کہ لوگوں کو صاف صاف بتا دیجئے کہ میں نے جو راہ بھی اپنائی ہے، سوچ سمجھ کر پوری
بصیرت کے ساتھ اپنائی ہے۔
’’اے
رسولﷺ! آپ ان سے صاف صاف کہہ دیجئے کہ میرا راستہ تو یہ ہے کہ میں اور میرے پیچھے
چلنے والے پوری بصیرت کے ساتھ اللہ کی طرف دعوت دے رہے ہیں اور خدا ہر عیب سے پاک ہے
اور میرا ان سے کوئی واسطہ نہیں جو خدا کے ساتھ شرک کرتے ہیں۔‘‘
’’اور
خدا کے نزدیک دین بس اسلام ہی ہے……‘‘(قرآن)
امت
مسلمہ کو خدا نے دین کی جو دولت عطا کی ہے یہی دونوں جہان کی عظمت و سر بلندی کا سرمایہ
ہے۔ بھلا اس کے مقابلے میں دنیا کی دولت اور شان و شوکت کی کیا قدر و قیمت ہے جو چند
روزہ اور فانی ہے۔
بلاشبہ
صحیح فہم کے ساتھ دین کی حکمت ہی تمام بھلائیوں کا سرچشمہ ہے اور جو شخص اس چیز سے
محروم ہے وہ دونوں جہان کی نعمتوںاور سعادتوں سے محروم ہے۔ اس کی زندگی میں کبھی طمانیت
اور سکون داخل نہیں ہوتا۔
خدا
کے دین کو چھوڑ کر جو طریق بھی اختیار کیا جائے، خدا کے یہاں اس کی کوئی قدر و قیمت
نہیں۔ اللہ رب العزت کے لئے وہی دین مقبول بارگاہ ہے جس کا تذکرہ قرآن پاک میں بالوضاحت
کیا گیا ہے اور جس کی عملی تفسیر اللہ کے محبوب صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی مبارک
زندگی میں پیش فرمائی ہے۔
اللہ
کے مشن (دین) کو پھیلانا ہر امتی پر فرض ہے۔ اس فرض کی ادائیگی کے لئے پہلے خود اپنا
عرفان حاصل کریں۔ خود آگاہی اور اپنی ذات کا عرفان ایسی روحانی کامیابی ہے جس کے ذریعے
انسان اپنی دعوت کا سچا نمونہ بن جاتا ہے۔ جو کچھ کہتا ہے عمل و کردار سے اس کا اظہار
ہوتا ہے۔
جب
ہم غور کرتے ہیں تو ہمارے سامنے یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ اللہ اپنی مخلوق
کی خدمت کرتا ہے۔ پیدائش سے تامرگ اور مرنے کے بعد اپنی مخلوق کیلئے وسائل کی فراہمی
ایک ایسی خدمت ہے جو خالق کائنات کا اپنا ذاتی وصف ہے۔ اللہ اپنے ہر بندہ کو وہ گناہ
گار ہو یا نیکو کار رزق عطا فرماتا ہے۔ رزق سے استفادہ کرنے کے لئے صحت عطا کرتا ہے۔
زمین کی بساط پر بکھری ہوئی چیزوں سے فائدہ اٹھانے کے لئے اللہ عقل و شعور کی دولت
سے نوازتا ہے۔ ہماری ہر طرح حفاظت کرتا ہے اور محبت کے ساتھ ہماری غلطیوں اور کوتاہیوں
کو معاف کرتا ہے۔
خدا
ہمیشہ سے ہے۔ ہمیشہ رہے گا۔ نہ اسے نیند آتی ہے اور نہ اونگھ۔ اس کی نظر سے بندہ کا
کوئی عمل پوشیدہ نہیں۔ وہ اپنے مخلص بندوں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔
آپ
صلی اللہ علیہ و سلم مکے میں ہیں اور مکے کے لوگوں میں آپ کے خلاف سازشیں ہو رہی ہیں۔
کوئی کہتا ہے کہ انہیں شہر سے نکال دو۔ کوئی کہتا ہے انہیں قتل کر دو۔ ان ہی دنوں مکے
کو اچانک قحط نے آ گھیرا……ایسا قحط کہ قریش کے لوگ پتے اور چھال کھانے پر مجبور ہو
گئے۔ بچے بھوک سے بلبلاتے اور بڑے ان کی حالت زار دیکھ کر تڑپ تڑپ اٹھتے تھے۔
رحمت
کون و مکان ان لوگوں کو اس لرزہ خیز مصیبت میں مبتلا دیکھ کر بے قرار ہو گئے۔ آپﷺ
کے مخلص ساتھی بھی آپﷺ کا اضطراب دیکھ کر تڑپ اٹھے۔ آپ نے اپنے جانی دشمنوں کو جن
کے پہنچائے ہوئے زخم ابھی بالکل تازہ تھے۔ اپنی دلی ہمدردی کا پیغام بھیجا اور ابو
سفیان اور صفوان کے پاس پانچ سو دینار بھیج کر کہلوایا کہ یہ دینار ان قحط کے مارے
ہوئے غریبوں میں تقسیم کر دیئے جائیں۔
رسول
اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اسوۂ حسنہ پر عمل کر کے آپ بھی قوم کی بے لوث خدمت کیجئے۔
اپنی کسی خدمت کا بندوں سے صلہ طلب نہ کیجئے۔ جو کچھ کیجئے محض خدا کی خوشنودی کیلئے
کیجئے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ
ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور
مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی
اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان
کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو
اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں
تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ
باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب
سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور
لازوال عیش ہے۔