Topics

جون1990؁ء۔کھانے کی زیادتی

فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ’’بہت زیادہ کھانے والے سے اللہ کی پناہ مانگو۔‘‘ کھانے کی زیادتی اور اسراف کے چند نقصانات کی طرف اپنی توجہ مبذول کیجئے۔

۱۔            زیادہ کھانے سے لبلبہ کو زیادہ کام کرنا پڑتا ہے اس کی وجہ سے اندرونی رطوبت (Insulin) کم ہو جاتی ہے اور خون میں شکر کی فراوانی ہو جاتی ہے۔ نتیجہ میں ذیابیطس کا مرض لاحق ہو جاتا ہے۔

۲۔           جب کہ دوسرا لازمی نتیجہ بلڈ پریشر ہوتا ہے۔ بلڈ پریشر اور ذیابیطس لازم اور ملزوم ہیں۔

۳۔           زیادہ کھانے سے شریانیں تنگ ہو جاتی ہیں جس سے خون کی گردش میں خلل واقع ہوتا ہے۔ جب شریانوں کی تنگی انتہا کو پہنچ جاتی ہے تو اعضا بے حس ہو جاتے ہیں۔ اگر یہ کیفیت دماغ کے کسی حصے پر وارد ہو جائے تو انسان پر فالج گر جاتا ہے۔

۴۔           ’’امراض قلب‘‘ کا بھی ایک بڑا سبب شریانوں کی تنگی ہوتی ہے۔ کیونکہ تنگی کی شدید کیفیت دل کی طرف ہو جائے تو دل کا دورہ پڑ جاتا ہے۔

۵۔           قبل از وقت بڑھاپا بھی ’’پرخوری‘‘ کے سبب ہوتا ہے کیونکہ اعضا اپنا صحیح عمل چھوڑ دیتے ہیں اور انسان وقت سے پہلے بوڑھا ہو جاتا ہے۔

۶۔           بہت زیادہ کھانے سے موٹاپا پیدا ہوتا ہے۔ موٹاپا بجائے خود کئی بیماریوں کا پیش خیمہ ہے۔

۷۔           بدہضمی، اسہال، دست اور قے جیسی موذی بیماریاں بھی بسیار خوری سے ہوتی ہیں۔

                مختصر یہ کہ زیادہ کھانا ہزار خرابیوں کو جنم دیتا ہے اس کے برعکس اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد پر عمل کیا جائے یعنی کھانا وقت پر کھایا جائے، ضرورت کے مطابق کھایا جائے، آدھا پیٹ روک کر کھایا جائے تو انسان ہمیشہ خوش رہتا ہے۔ خوشی سے صحت پر خوشگوار اثر مرتب ہوتا ہے۔

                ارشاد عالی مقامﷺ ہے۔

                ’’انسان کی کمر سیدھی رکھنے کے لئے چند لقمے ہی کافی ہیں اور اگر لازماً زیادہ ہی کھانا پڑے تو معدہ میں ایک تہائی کھانا ہو ایک تہائی پانی ہو اور ایک تہائی جگہ سانس کے لئے خالی ہو۔‘‘

                قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

                ’’کھائو پیو اور اسراف نہ کرو۔ بیشک اللہ اسراف (فضول خرچی) کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔‘‘

                خورد و نوش کے سلسلہ میں اللہ کے فرمان پر عمل کیا جائے تو ہاضمے کی خرابی اور صحت کے بگاڑ کا مسئلہ نہیں بنتا۔

                کھانے پینے میں اسراف کی دو صورتیں ہیں۔

                یہ دیکھا جائے کہ آپ کیا کھا رہے ہیں۔ کھانے کی مقدار میں (Quantity) کیا ہیں۔ کیا آپ ایسی غذا استعمال کر رہے ہیں جو آسانی سے ہضم ہو سکے۔ جو کچھ آپ کھا رہے ہیں اس کی مقدار کیا ہے۔ اسراف یہ ہے کہ انسان وہ اشیاء کھائے جو اپنی کیمیائی خاصیت کے اعتبار سے اس کی اپنی طبیعت اور مزاج کے موافق نہ ہو یا موسم کے لحاظ سے موزوں نہ ہو۔ مثلاً سردی کے موسم میں سرد خاصیت والی اشیاء درد بخار میں ناموافق گرم گرم چیزوں کا استعمال اسراف کے دائرے میں آئے گا۔

                رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے:

                ’’جو شخص دنیا میں زیادہ کھائے گا قیامت میں اتنا ہی زیادہ بھوکا رہے گا۔‘‘

 

نور نبوت

                ہمارے پیارے آقا سرور کائنات علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ فلاں فلاں اوصاف و اخلاق ایمان کے لئے خصوصیت رکھتے ہیں۔ جس قدر ان لوازم اور خصوصیات کی زیادتی یا کمی ہو گی اس ہی قدر ایمان روشن منور یا کمزور ہو گا۔ ایمان یقین کا ایک درخت ہے جس کی بے شمار شاخیں ہیں اور ان شاخوں پر شماریات سے زیادہ پتے پھول کھلتے ہیں۔ آج کی مجلس میں ہم نے ان میں چند کو  یکجا کیا ہے۔

٭           توحید کا اقرار

٭           خدا اور اس کا رسولﷺ سب سے زیادہ پیارا ہو۔ اللہ کی مخلوق سے صرف اللہ کی محبت میں پیار کرے۔ ایمان میں لغزش سے اتنی تکلیف ہو جیسے آگ کی تپش سے تکلیف ہوتی ہے۔

٭           حق بات کو ہر حال میں تسلیم کرنا۔ مزاحمت کے باوجود جھوٹ نہ بولنا۔ اس بات پر یقین ہونا کہ جو کچھ پیش آ چکا ہے یا آئندہ پیش آئے گا اللہ کی مشیئت سے ہے۔

٭           مفلسی اور تنگدستی میں خدا کی راہ میں خرچ کرنا۔ دنیا میں امن اور سلامتی کا پرچار کرنا۔ خود اپنی ذات سے بھی انصاف کرنا۔ اخلاق کی فضول خرچی نہ کرنا۔

٭           کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک اپنے بھائی کے لئے بھی وہی پسند نہ کرے جو اپنے لئے کرتا ہے۔

٭           صحیح مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان کے شر سے مسلمان سلامت رہیں۔ جس پر لوگ اتنا بھروسہ کریں کہ اپنی جان و مال اس کی امانت میں دے دیں۔

٭           اسلام میں بہترین عمل یہ ہے کہ بھوکوں کو کھانا کھلایا جائے اور ہر جان پہچان کے لوگوں یا انجانے لوگوں کی سلامتی کے لئے دعا کی جائے۔

٭           مصیبتوں، پریشانیوں کے وقت صبر کرنا اور بوقت ضرورت اخلاقی جرانمردی کا مظاہرہ کرنا۔

٭           مومن کی تعریف یہ ہے کہ وہ دوسروں سے محبت اور شفقت سے پیش آتا ہے۔ اگر اس سے کوئی محبت نہیں کرتا تو وہ اس کی پرواہ نہیں کرتا۔ وہ لوگوں کی صرف اخلاص نیت سے خدمت کرتا ہے۔

٭           مومن کسی پر طعن نہیں کرتا اور نہ کسی کو بددعا دیتا ہے۔ اس کی زبان صاف ہوتی ہے۔ گالی دیتا ہے نہ بدزبان ہوتا ہے۔

٭           رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

                ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کوئی اس وقت تک جنت میں نہیں جا سکتا جب تک اس کا پڑوسی اس کے غصے سے محفوظ نہ رہے۔

٭           ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے۔ مسلمان آپس میں ایک دوسرے کی ضروریات کا خیال رکھتے ہیں۔

٭           مومن اپنے مہمان کی عزت کرتا ہے اور اس کی خدمت کرتا ہے۔

٭           اخلاق حسنہ دراصل صفات الٰہیہ کا سایہ ہے۔

٭           خوش خلقی اللہ تعالیٰ کا خلق عظیم ہے۔

٭           وہی اخلاق اچھا ہے جو صفات ربانی کا عکس ہو۔

٭           بندے کا کمال یہ ہے کہ اس کے اندر اللہ کی صفات متحرک ہوں اور وہ اللہ کی صفات کا امین ہو خدا کی کبریائی کے مقابلے میں بندے میں خاکساری اور تواضع ہو۔ اور خدا کی عظمت و بلندی کے مقابلے میں بندے میں انکساری ہو۔

٭           بندہ جس حد تک اللہ کی صفات سے اکتساب کرتا ہے اسی مناسبت سے روحانی ترقی کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔

Topics


نورنبوت نور الٰہی-V1

خواجہ شمس الدین عظیمی

زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور لازوال عیش ہے۔