Topics
جو کچھ نہیں تھا تو اللہ تھا۔
اللہ
نے جب کائنات بنائی تو پہلے کائنات کو زندہ اور متحرک رکھنے کے لئے ایک انرجی پیدا
کی۔ کائنات کے وجود میں آنے سے پہلے یہ انرجی اللہ تعالیٰ کا نور ہے۔ اللہ کے نور
میں جب حرکت پیدا ہوئی تو ایک من موہنی صورت بنی۔ ایک پاکیزہ اور مقدس سراپا وجود
میں آیا۔ یہ وجود اللہ کی یکتا ذات کے بعد دوسرا وجود ہے۔ پہلا وجود نقش و نگار
اور ڈائمینشن سے ماوراء ہے اور دوسرا وجود خدوخال کا ایک حسین پیکر ہے۔ یہ منصفانہ
و مجلہ پیکر اللہ عزوجل کے حبیب محمد صلی اللہ علیہ و سلم ہیں۔
اللہ
نے انسان کو جو قوت گویائی عطا کی ہے اس قوت گویائی اور اللہ کے درمیان میڈیم رسول
اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہیں۔ امی رسول مکرم نے قرآن و حدیث کے ذریعے سے بے شمار
الفاظ اور محاورات دنیا میں روشناس کرائے یعنی عرب اور غیر عرب ممالک میں جو فصاحت
و بلاغت کے چاند نظر آ رہے ہیں یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا اعجاز ہے۔
گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے کلام کے ذریعے فصاحت و بلاغت کا سلیقہ
سکھایا۔ آج کی نشست میں ہم ایسے اشعار پیش کر رہے ہیں جن کو ہمارے دانشوروں نے
قرآنی آیات اور احادیث مبارکہ کی روشنی میں بیان کیا ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ
ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور
مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی
اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان
کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو
اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں
تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ
باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب
سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور
لازوال عیش ہے۔