Topics

جون 1982؁ء۔کاروبار میں ترقی کے لئے

کاروبار میں حسن اخلاق، کاروباری ترقی کے لئے ضمانت ہے۔ دکاندار کی حیثیت سے آپ کے اوپر بہت سی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔

۱۔            یہ کہ خریداروں کو اچھے سے اچھا مال فراہم کریں۔ جس مال پر آپ کو خود اعتماد نہ ہو وہ ہرگز کسی کو نہ دیں۔

۲۔           آپ کو اپنے کردار سے یہ ثابت کرنا ہو گا کہ خریدار آپ کے اوپر اعتماد کریں۔ آپ کو اپنا خیر خواہ سمجھیں تا کہ آپ سے متاثر ہوں اور ان کو پورا پورا اعتماد ہو کہ آپ کی دکان یا کاروبار سے انہیں کبھی دھوکہ نہیں دیا جائے گا۔

۳۔           اگر کوئی خریدار آپ سے مشورہ طلب کرے تو بالکل صحیح صحیح اور مناسب مشورہ دیں چاہے اس میں آپ کا نقصان ہی کیوں نہ ہوتا ہو۔

۴۔           وقت کی پابندی کا پورا خیال رکھیں اور دکان صحیح وقت پر کھولیں اور صبر کے ساتھ دکان پر جم کر بیٹھے رہیں۔ صبح بہت سویرے بیدار ہوکر فرائض ادا کرنے کے بعد رزق کی تلاش میں نکل جانے سے خیر و برکت ہوتی ہے۔

۵۔           خود بھی محنت کیجئے اور ملازمین کو بھی محنت کا عادی بنایئے اور ملازمین کے حقوق فیاضی اور ایثار کے ساتھ پورے کیجئے۔ ملازمین کاروباری فروغ میں آپ کے ہاتھ پیر ہیں۔ ہمیشہ ان کے ساتھ پیار و محبت اور نرمی کا سلوک کریں۔

۶۔           قرض مانگنے والوں کے ساتھ سختی نہ کریں۔ قرض کی ادائیگی میں انہیں پریشانی ہو تو ان سے تقاضے میں شدت اختیار نہ کریں۔

                اللہ کے حبیبﷺ کا فرمان ہے:

                ’’جس شخص کی یہ خواہش ہو کہ خدا اس کو روز قیامت کے غم اور گھٹن سے بچائے رکھے تو اسے چاہئے کہ تنگدست قرض دار کو مہلت دے۔ یا قرض کا بوجھ اس کے اوپر سے اتار دے۔‘‘

۷۔           تول کا حق پورا کرنا ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ ناپ تول میں، لینے اور دینے میں پوری دیانت داری اختیار کی جائے۔

                اللہ پاک کا ارشاد ہے:

                ’’ناپ تول میں کمی کرنے والوں کے لئے ہلاکت ہے جو لوگوں سے لیتے وقت پورا وزن اور پورا ناپ لیں اور جب دوسروں کو دینے کا وقت آئے تو تول یا ناپ کم کر دیں۔ کیا یہ لوگ نہیں جانتے کہ یہ زندہ کر کے اٹھائے بھی جائیں گے، ایک بڑے ہی سخت دن میں جس دن تمام انسان اللہ رب العالمین کے حضور کھڑے ہوں گے۔‘‘  (قرآن)


                پیارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں ایک صحابیؓ حاضر ہوئے۔ نبی برحق علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کوئی بات پوچھی۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دریافت فرمایا۔ ’’تمہارے گھر میں کچھ سامان بھی ہے؟‘‘

                صحابی رسول نے عرض کیا۔ ’’یا رسول اللہﷺ! صرف دو چیزیں ہیں۔ ایک ٹاٹ کا بستر ہے جس کو ہم اوڑھتے بھی ہیں اور بچھاتے بھی ہیں اور ایک پانی پینے کے لئے پیالہ ہے۔‘‘

                آپﷺ نے فرمایا۔ ’’یہ دونوں چیزیں میرے پاس لے آئو۔‘‘

                صحابی دونوں چیزیں لے کر حاضر ہو گئے۔ آپﷺ نے وہ دونوں چیزیں دو درہم میں نیلام کر دیں اور دونوں درہم ان کے حوالے کرتے ہوئے فرمایا۔ ’’جائو ایک درہم میں تو کچھ کھانے پینے کا سامان خرید کر گھر والوں کو دے آئو اور ایک درہم میں کلہاڑی خرید لائو۔‘‘

                پھر کلہاڑی میں آپﷺ نے اپنے مبارک ہاتھوں سے دستہ لگایا اور فرمایا۔ ’’جنگل سے لکڑیاں کاٹ کاٹ کر لائو اور بازار میں فروخت کرو اور پندرہ روز کے بعد آ کر ساری روئداد سنائو۔‘‘

                پندرہ دن کے بعد جب وہ صحابی حاضر ہوئے تو ان کے پاس دس درہم تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے خوش ہو کر فرمایا۔’’ یہ محنت کی کمائی تمہارے لئے اس سے کہیں بہتر ہے کہ تم لوگوں کے سامنے دست سوال دراز کرو۔ اور قیامت کے روز تمہارے چہرے پر بھیک مانگنے کا داغ ہو۔‘‘

                ایک بار رحمت اللعالمین حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے لوگوں نے پوچھا۔ ’’یا رسول اللہﷺ! سب سے بہتر کمائی کون سی ہے؟‘‘

                فرمایا۔ ’’اپنے ہاتھ کی کمائی اور ہر وہ کاروبار جس میں جھوٹ اور خیانت نہ ہو۔‘‘

                اس حکم کی تعمیل میں ہمارے اوپر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ ہم دین پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہتے ہوئے کاروبار کریں۔ ہمیشہ سچائی اور راست گوئی سے کاروبار کو فروغ دیں۔ اپنے سامان کو اچھا ثابت کرنے یا گاہک کو متاثر کرنے کے لئے قسمیں نہ کھائیں۔

                نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے…

                ’’قیامت کے روز خدا تعالیٰ نہ اس شخص سے بات کرے گا، نہ اس کی طرف رُخ کر کے دیکھے گا اور نہ اس کو پاک صاف کر کے جنت میں داخل کرے گا جو جھوٹی قسمیں کھا کھا کر اپنے کاروبار کو فروغ دینے کی کوشش کرتا ہے۔‘‘

                رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے…

                ’’سچا اور امانت دار تاجر قیامت میں نبیوں، صدیقوں اور شہیدوں کے ساتھ ساتھ ہو گا۔‘‘

Topics


نورنبوت نور الٰہی-V1

خواجہ شمس الدین عظیمی

زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور لازوال عیش ہے۔