Topics
اہل ایمان کے دلوں میں دولت کی اہمیت کو کم
کرنے اور انہیں عطیہ خداوندی کا احساس دلانے کے لئے قرآن پاک میں جگہ جگہ اللہ کی
مخلوق کے لئے مال و دولت کو کھلا رکھنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ طرح طرح سے لوگوں کے دلوں
میں یہ بات بٹھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ پاک اور حلال کمائی میں سے اللہ کی راہ میں
خرچ کرنا اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا ہے۔ مال و دولت کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے
کے متعلق یہاں تک کہہ دیا گیا کہ
’’تم
نیکی اور اچھائی کو نہیں پا سکتے۔ جب تک کہ وہ چیز اللہ کی راہ میں نہ دے دو جو تمہیں
عزیز ہے۔‘‘
اللہ
کی راہ میں خرچ کرنے کی حد کو وسیع کرتے ہوئے کہا گیا کہ
’’اے
نبیﷺ! وہ تم سے پوچھتے ہیں کہ اللہ کی راہ میں کیا خرچ کریں۔ کہہ دو کہ اپنی ضرورت
سے زائد۔‘‘
ان
احکام خداوندی کو سامنے رکھتے ہوئے اللہ کی مخلوق کی خدمت کے لئے زیادہ سے زیادہ خرچ
کیجئے۔ یہ کام سب سے پہلے اپنے مستحق رشتہ داروں سے شروع کیجئے اور پھر اس میں دوسرے
ضرورت مندوں کو بھی شامل کر لیجئے۔
یاد
رکھئے! جو کچھ آپ اللہ کے لئے خرچ کریں وہ محض اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے ہو اس
میں کوئی غرض، بدلہ یا شہرت کا حصول پیش نظر نہ ہو۔
ضرورت
مندوں کی امداد پوشیدہ طریقے سے کریں تا کہ آپ کے اندر بڑائی یا نیکی کا غرور پیدا
نہ ہو اور نہ ان کی عزت نفس مجروح ہو۔ کسی کو کچھ دے کر احسان نہ جتائیں اور نہ نمود
و نمائش کا اظہار کریں۔
ارشاد
خداوندی ہے:
’’مومنو!
اپنے صدقات احسان جتا کر اور غریبوں کا دل دکھا کر اس شخص کی طرح خاک میں نہ ملا دو
جو محض لوگوں کو دکھانے کے لئے خرچ کرتا ہے۔‘‘
ایک
مرتبہ زبان نبوتﷺ یوں گویا ہوئی:
’’اے
آدم کے بیٹے! تیرا دینا تیرے لئے بہتر اور تیرا رکھ چھوڑنا تیرے لئے بُرا ہے۔‘‘
انسان
کامل خاتم النبیین صلی اللہ علیہ و سلم سخاوت، فیاضی اور مستحقین کی دست گیری میں سب
سے ممتاز تھے۔ صحابہؓ کا کہنا ہے کہ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ سخی اور
فیاض کسی کو نہیں دیکھا۔ یہ آپ کا طرز عمل اور اعلیٰ عملی نمونہ تھا جس نے ایک ایسا
معاشرہ تشکیل دیا۔ جس میں لوگ اپنی کمائی اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے لئے بے قرار
رہتے تھے۔
ہمارے
اوپر فرض ہے کہ ہم اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے اسوہ حسنہ کی روشنی میں اپنی
کمائی کو مخلوق خدا کی بھلائی کے بہترین مصرف میں صرف کریں تا کہ اس سے ہماری اپنی
ذات کی نشوونما ہو اور معاشرہ سے معاشی ناہمواری کے عفریت کا خاتمہ ہو جائے۔ رحمت اللعالمین
نے ارتکاز دولت پر بار بار اظہار ناپسندیدگی فرمایا اور اسے مستحقین کی ضروریات پر
خرچ کرنے کی تلقین فرمائی۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ
ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور
مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی
اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان
کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو
اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں
تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ
باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب
سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور
لازوال عیش ہے۔